وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ جمعہ کو گوا میں بھگوان رام کی 77فٹ اونچی کانسے کی سب سے اونچی مورتی کی نقاب کشائی کی۔بعدازاں انھوں نے کرناٹک میں اڈپی کے شری کرشن مٹھ میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کے ساتھ گیتا کا شلوک پاٹھ کیا اور سورن تیرتھ منڈپ کا افتتاح بھی کیا۔ اس سے قبل گزشتہ منگل کو انھوں نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ تعمیر کئے گئے رام مندرپر بڑے جوش وخروش کے ساتھ بھگوا پرچم لہرایا تھا۔ اس موقع پر آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت آگے آگے تھے اور وزیراعظم ان کے پیچھے پیچھے۔ دونوں نے ویدک منتروں کے جاپ کے درمیان رام مندر کی برجی پر ’دھرم دھوج‘ نصب کیا۔ان تفصیلات کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کسی سیکولرملک کیقائد نہیں بلکہ کسی مذہبی ریاست کے سربراہ ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے اور یہاں کا آئین ملک کے سبھی باشندوں کو یکساں نظر سے دیکھتا ہے۔ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے اور نہ ہی کسی مذہب کو برتری حاصل ہے، لیکن جب سے وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ملک کی سیکولر اقدارکو پس پشت ڈال کر یہاں ہندو مذہب کی اجارہ داری قائم کردی ہے۔ اسی لیے وہ تمام مذہبی تقریبات میں یہی کہتے ہیں کہ وہ ہندوستان کی اصل تہذیب کو زندہ کرنے کاکام کررہے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس ملک کی اصل تہذیب گنگا جمنی تہذیب ہے جہاں سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ کسی کو مذہب کی بنیادپر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ لیکن یہاں جس تیز ی کے ساتھ ایک مذہب، ایک زبان اور ایک کلچر کو تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے ملک کے سیکولر ڈھانچے اور یہاں کی اقلیتوں کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں اور وہ خود کو الگ تھلگ محسوس کررہی ہیں۔
گوا میں بھگوان رام کی مورتی کی نقاب کشائی کے بعد اپنی تقریر میں وزیراعظم نے کہا کہ ”ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، کاشی وشوناتھ دھام کی جدید کاری اور اجین میں مہاکال مہالوک کی توسیع ہندوستان میں ہورہی تہذیبی بیداری کی علامتیں ہیں۔“ اس سے قبل وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر پر بھگوا جھنڈا پھیرانے کی تقریب میں کہا تھا کہ ”یہ صرف ایک’دھرم دھوج‘ نہیں، بلکہ ہندوستانی تہذیب کے نئے عروج کا جھنڈا ہے۔ اس کا بھگوا رنگ اور اس پر نقش ’اوم‘ رام راجیہ کی اقدار کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک جھنڈا نہیں بلکہ کروڑوں کی آستھا اور صبر کی فتح ہے۔“ اس دوران انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ”پانچ سو برسوں کا خواب سچ ہوا ہے جو آنے والے ایک ہزارسال کی بنیاد کو مضبوط کرتا ہے۔“
ایودھیا میں زبردست تام جھام کے ساتھ کی گئی یہ پرچم کشائی دراصل رام مندر کی تعمیر مکمل ہونے کا جشن تھا۔ حالانکہ تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی جب گزشتہ سال عام انتخابات سے قبل رام مندر کا افتتاح کیا گیا تھاتوہندو مذہب کی کئی بڑی شخصیات نے اس پر سوال بھی اٹھائے تھے اور اسے مذہبی روسوم وراج کے برعکس قراردیا تھا، لیکن وزیراعظم کو جلدی اس لیے تھی کہ وہ اس کا فائدہ عام انتخابات میں اٹھانا چاہتے تھے۔ مگر جب انتخابی نتائج سامنے آئے تووہ وزیراعظم کی امیدوں کے برعکس تھے، کیونکہ اس الیکشن میں بی جے پی کو اتنی سیٹیں بھی نہیں ملی تھیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر حکومت سازی کرسکے۔ لہٰذا بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے نتیش کمار اور چندر بابو نائڈو پر انحصار کرنا پڑا اور ان دونوں کی مدد سے حکومت تشکیل پائی ۔ المیہ یہ بھی ہوا کہ جس صوبے یعنی اترپردیش میں بی جے پی نے بڑی امیدوں کے ساتھ رام مندر بنوایا تھا وہاں اس کی سیٹیں گھٹ کر آدھی رہ گئیں۔ یہاں تک کہ ایودھیا میں بھی اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عوام نے رام مندر کی سیاست کوقبول نہیں کیا۔ یوں بھی رام کسی کا سیاسی ہتھیار نہیں ہوسکتے، مگر بی جے پی پوری ڈھٹائی کے ساتھ رام چندرجی کو سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کررہی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
وزیراعظم نے رام مندر کی پرچم کشائی کی تقریب میں جس والہانہ عقیدت کے ساتھ شرکت کی اور وہاں جس قسم کی تقریر کی وہ یقینا کسی سیکولر ملک کے وزیراعظم کا طرز عمل ہرگز نہیں ہوسکتا۔یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ سپریم کورٹ نے 2019میں جب بابری مسجد کی زمین رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندو فریق کو دینے کا فیصلہ سنایا تھاتو اس فیصلے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہندو فریق کے ان تمام دعوؤں کی تردید کی گئی تھی جن کی بنیادپر رام مندر کی تحریک شروع کی گئی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کربنائی گئی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں صاف کہا کہ محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے بابری مسجد کی کھدائی کے دوران بھی اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملاکہ یہاں پہلے کوئی مندر موجود تھا۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ کے فیصلے میں بابری مسجد کے انہدام کو بھی ایک مجرمانہ عمل سے تعبیر کیا گیا۔ ان تمام بنیادی حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود عدالت نے فیصلہ رام مندر کے حق میں کیوں دیا،یہ ابھی تک ایک راز ہی ہے جس کی نقاب کشائی ہونا باقی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک متبادل مسجد بنانے کا جو حکم دیا تھا وہ ابھی تک ٹھنڈے بستے میں ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کو اس متبادل مسجد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن اس کی تعمیر میں حائل رکاوٹوں کا دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی ایک کوشش تھی تاکہ وہ متبادل زمین لے کر مطمئن ہوسکیں، مگر مسلمانوں نے شروع میں ہی اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔
رام مندر پر بھگوا جھنڈا پھیرانے کی تقریب میں آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ان لوگوں کی قربانیوں کو یاد کیا جنھوں نے رام جنم بھومی مکتی آندولن کے دوران’بلیدان‘ دیا۔ انھوں نے کہا کہ”آج کئی نسلوں کی قربانیوں کا پھل ملا ہے، آج کا دن ہمارے لیے بڑا معنی خیز ہے۔ آج یقینا ان لوگوں کی روح کوسکون ملا ہوگا جنھوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔“قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس پورے پروگرام کے دوران ایودھیا شہر ویدک منتروں، گھنٹوں اور ناقوسوں کی گونج میں ڈوبا رہا۔دھرم دھوج کے مقررہ مہورت میں نصب ہوتے ہی ماحول جشن میں بدل گیا۔آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی تقریر میں خاص طورپر وشوہندو پریشد کے سابق جنرل سیکریٹری اشوک سنگھل، مہنت رام چندر داس اور وشنو ہری ڈالمیا جیسے لوگوں کا نام لیا جو رام جنم بھومی مکتی آندولن کے لیڈر تھے، لیکن موہن بھاگوت جی ان ہزاروں بے گناہوں کی قربانیوں کو فراموش کربیٹھے جنھوں نے اس آندولن کے دوران برپا ہونے والے ہولناک فسادات میں اپنی جانیں گنوائیں۔
المیہ یہ ہے کہ رام مندر کے معاملے میں بی جے پی حکومت نے ایک ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ اپوزیشن کے لوگ بھی اس موضوع پر پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رام مندر پر وزیراعظم کی طرف سے بھگوا لہرانے کی تقریب یا اس تقریب پر بے تحاشا سرکاری وسائل کے استعمال پر ابھی تک کسی بڑی پارٹی کے لیڈر نے زبان نہیں کھولی ہے۔ ہاں کانگریس پارٹی کے دوئم درجے کے بعض لیڈران نے ضرور اس پر تنقید کی ہے۔ کانگریس رہنما راشد علوی کا کہنا ہے کہ’’آئین کے مطابق اس ملک کا کوئی مذہب نہیں ہے تو وزیراعظم مندر پر کیوں پرچم لہرارہے ہیں؟ کیا وہ مسجد، گردوارے یا چرچ پر بھی پرچم لہرائیں گے؟“انھوں نے کہا کہ ”یہ سب یوپی انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے اور مذہبی جذبات بھڑکانے کے لیے کیا گیا ہے۔“ کانگریس کے سابق رکن پارلیمان سندیپ دکشت کا کہنا ہے کہ ”بی جے پی نے ہمیشہ مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کیا ہے۔“ ممبرپارلیمنٹ طارق انور نے کہا کہ ”وزیراعظم مودی تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔ یہ کام کسی مذہبی گرو کو کرنا چاہئے تھا، مگر انھوں نے خود ہی شلانیاس بھی کیا اور خود ہی پرچم کشائی بھی۔“