Jadid Khabar

کیا یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نہیں ہے؟

Thumb

ملک میں اس وقت سب سے بڑا موضوع بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہورہے مظالم ہیں۔ وشوہندوپریشد اور بجرنگ دل جیسی ہندو انتہا پسند تنظیموں نے اس معاملے میں آسمان سرپہ اٹھا رکھا ہے۔ نہ صرف کئی شہروں میں پرتشدد احتجاج ہوئے ہیں بلکہ اترپردیش اور بہار میں کئی مزاروں کو بھی تہس نہس کردیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ہماری حکومت بھی سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے میں دوبار نئی دہلی میں تعینات بنگلہ دیشی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے کھری کھوٹی سنائی گئی ہیں۔گزشتہ جمعہ کو وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک پریس کانفرنس بلاکر بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے خلاف جاری تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ان  کا کہنا ہے کہ ہندو، عیسائی اور بودھ فرقوں پر ہورہے حملے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔ جیسوال نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے دور میں اقلیتوں کے خلاف اب تک قتل،آتشزنی اور زمین پر قبضے کے2900 واقعات پیش  آچکے ہیں۔ہندوستان نے مطالبہ کیا ہے کہ قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور ان واقعات میں ملوث مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند روز کی بدامنی کے دوران بنگلہ دیش میں دوہندو نوجوانوں کی ہلاکت اور بعض مقامات پرہندوؤں  کے مکانات نذرآتش کئے جانے کے بعد وہاں کی اقلیتی ہندو آبادی میں خوف وہراس ہے۔ یہ واقعات یقینا قابل مذمت ہیں اوربنگلہ دیشی سرکار نے قصورواروں کے خلاف کارروائی بھی کی ہے مگر اس معاملے میں ہندوانتہا پسندوں اور مودی سرکار نے جو رویہ اختیار کی ہے وہ کم ازکم ہمارے لیے ناقابل فہم ہے۔چونکہ جب کبھی ہندوستان میں اقلیتوں پر مظالم ہوتے ہیں اور ان پر کوئی مسلم ملک آواز اٹھاتا ہے تو ہماری حکومت اس احتجاج کو یہ کہتے ہوئے حقارت سے مسترد کردیتی ہے کہ ”یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے اور کسی بیرونی ملک کو اس میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔“سفارتی نقطہ نظر سے یہ بات درست بھی ہے، لیکن اگر ہم کسی دوسرے ملک کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے تو سوال یہ ہے کہ آج ہم بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت پر ہورہے مظالم کے خلاف احتجاج کیوں کررہے ہیں اور وہ ہندوانتہا پسند تنظیمیں جو یہاں اقلیتوں پر حملوں کے لیے ذمہ دار ہیں، اس پر واویلا کیوں مچارہی ہیں۔
بنگلہ دیش کے واقعات پر ہندوستان کی تشویش حق بجانب ہے، کیونکہ وہ ہمارا پڑوسی ملک ہے اور اس کی تخلیق بھی ہماری ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ وہاں جب کبھی حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کی آنچ ہندوستان میں بھی محسوس کی جاتی ہے۔واقعی بنگلہ دیش اس وقت نازک دور سے گزررہا ہے۔وہاں سیاسی عدم استحکام ہے اور امن وقانون کی مشنری گھٹنوں پر آگئی ہے۔تازہ بدامنی کا سبب نوجوان طلبہ لیڈر عثمان ہادی کا قتل ہے جنھیں نامعلوم افراد نے گولیوں سے بھون دیا تھا۔ عثمان ہادی نے شیخ حسینہ کا تختہ پلٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں مستقبل کے رہنما کی صورت میں دیکھا جارہا تھا۔ انھوں نے فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں بطورآزاد امیدوار حصہ لینے کا بھی اعلان کیا تھا، لیکن اچانک ان کے قتل کے بعد صورتحال بگڑ گئی ہے۔اس درمیان سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق رحمن 17برس کی جلا وطنی کے بعدلندن سے ڈھاکہ پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے پہلے عوامی خطاب میں مارٹن لوتھر کنگ کے اس جملے کو دوہرایا ہے کہ ”میرے پاس ایک خواب ہے“۔ کہا جاتا ہے کہ فروری کے انتخابات میں طارق رحمن ہی اپنی والدہ کی پارٹی بی این پی کی قیادت کریں گے، جس کے اقتدار میں آنے کے امکانات روشن ہیں۔ چونکہ خالدہ ضیاء سخت علیل ہیں، اس لیے فروری کے چناؤ میں ان کا کوئی سرگرم رول نہیں ہوگا۔طارق رحمن کو مستقبل کے وزیراعظم کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔
بنگلہ دیش میں طلبہ لیڈر عثمان ہادی کی موت کے بعد جو تشدد ہو ا ہے اس میں اب تک دوہندو نوجوانوں کی موت ہوچکی ہے۔ ایک ہندو نوجوان کو گزشتہ ہفتہ توہین رسالت کے الزام میں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا جبکہ دوسرے ہندو نوجوان امرت منڈل کو گزشتہ جمعرات کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ امرت منڈل علاقہ میں وصولی گینگ کا سرغنہ تھا اور یہی اس کی ہلاکت کا سبب بھی ہے۔وجہ کچھ بھی ہو بنگلہ دیش میں قتل کی یہ وراداتیں قابل مذمت ہیں۔ بنگلہ دیش کے بعض دیگر اضلاع سے بھی ایسی خبریں آئی ہیں کہ وہاں ہندوؤں کے گھروں پر حملے ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض کونذرآتش کردیا گیا ہے۔ 
تشویش ناک بات یہ ہے بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف ہورہی وارداتوں کے لیے ہندو انتہا پسند تنظیموں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ذمہ دار سمجھ کر انھیں نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ بہار اور اترپردیش میں کئی مزاروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اڑیسہ میں مغربی بنگال کے ایک مسلم مزدور کو بنگلہ دیشی ہونے کے شبہ میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ  شیخ حسینہ واجد کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بنگلہ دیش کے تعلق سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی قطعی تبدیل ہوگئی ہے۔ گزشتہ پندرہ برس کے دوران جب کہ شیخ حسینہ بنگلہ دیش کی وزیراعظمتھیں  دونوں ملکوں کے تعلقات بہت اچھے رہے، لیکن ان کی معزولی کے بعد صورتحال بدل گئی ہے اور ہندوستان میں بنگلہ دیش مخالف مہم شروع ہوگئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہر بنگلہ بولنے والے مزدور کو بنگلہ دیشی سمجھ کرہراساں کیا جارہا ہے۔ مغربی بنگال کے رہنے والے بنگلہ بولنے والے کئی مسلمانوں کو زبردستی سرحد پار ڈھکیل کر ان کی جانوں سے کھلواڑ کیا گیا ہے۔بنگالی بولنے والے مغربی بنگال کے مزدور جہاں کہیں ہیں انھیں ’گھس پیٹھیا‘قرار دے کر ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا جارہا ہے۔
اب ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ہندوستان نے بنگلہ دیش میں ہندو ؤں پر ہورہے مظالم کے تعلق سے جو طرزعمل اختیار کیا ہے، وہ کہاں تک درست ہے۔ بنگلہ دیش کی ہندو اقلیت پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی اخلاقی جرات ہم پہلے ہی کھوچکے ہیں، کیونکہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جارہا ہے وہ ہندوستان جیسے بڑے اور سیکولر ملک کے شایان شان نہیں ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم پچھلے چندروز کے واقعات پر ہی نظر ڈالیں گے۔ گزشتہ 25دسمبر کوپوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں بھی کرسمس منایا گیا، جو عیسائیوں کا سب سے بڑا تہوارہے۔ عیسائی اس ملک میں مسلمانوں کے بعد دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہاں تعلیم کا جال بچھانا ہے۔ عیسائی مشنریز کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکول ہندوستان میں اپنی معیاری تعلیم کے لیے مشہور ہیں۔ لیکن جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی بھی فسطائی طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔ان پر سب سے بڑا الزام تبدیلی مذہب کرانے کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ25/دسمبر کرسمس کے موقع پر ملک کی مختلف ریاستوں میں بجرنگ دل اور دیگر انتہا پسند ہندوتنظیموں نے چرچوں پر حملے کئے اورانھیں  توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا۔ کئی مقامات پر کرسمس کے علامتی سانتا کلاز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایک طرف جہاں کرسمس کے خلاف یہ شرانگیزی جاری تھی تو دوسری طرف وزیراعظم نریندرمودی نے دہلی کے سب سے بڑے چرچ میں حاضر ہوکر دعائیہ تقریب میں شرکت کی اور عیسائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ لیکن سرکاری مشنری نے بجرنگ دل اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ان ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جنھوں نے کرسمس کی تقریبات کو تہس نہس کیااورچرچوں پر حملے کئے۔ یہ ہے ہمارا وہ اصل چہرہ جس کے ساتھ ہم بنگلہ دیش میں ہندواقلیتی آبادی پر ہورہے مظالم کے خلاف گھڑیالی آنسو بہارہے ہیں۔