Jadid Khabar

دہلی کو کس نے دہلایا؟

Thumb

گزشتہ پیر کو راجدھانی دہلی میں ہوئے  انتہائی طاقتور دھماکہکیسلسلہ میں جانچ ایجنسیوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ یہ کارروائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کے ایک نیٹ ورک نے انجام دی ہے۔ ان سبھی کا تعلق کشمیر سے ہے اور انھوں نے دہلی سے متصل فریدآباد (ہریانہ)کی الفلاح یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد الفلاح یونیورسٹی جانچ ایجنسیوں کے راڈار پر ہے اور اس کی ہر پہلو سے جانچ کی جارہی ہے۔ یونیورسٹی کی منظوری رد کردی گئی ہے اور پولیس ان مالی وسائل کا پتہ لگارہی ہے جن سے یہ یونیورسٹی وجود میں آئی۔ اس یونیورسٹی کے بانی جواد صدیقی فی الحال کسی بیرونی ملک میں مقیم ہیں۔ مدھیہ پردیش کے ایک چھوٹے سے علاقہ سے اپنا سفر شروع کرنے والے جواد صدیقی نے کوئی بیس برس پہلے سادہ لوح مسلمانوں کو بھاری منافع کا لالچ دے کر سرمایہ کاری پر آمادہ کیا تھا۔ ہزاروں لوگوں نے الفلاح میں سرمایہ کاری کی اور ان کے کروڑوں روپے ڈوب گئے۔بعد کو جب بھانڈا پھوٹا تو جواد صدیقی کو گرفتار کیا گیا اور انھوں نے کئی برس جیل میں گزارے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ غبن کئے ہوئے اسی پیسے سے انھوں نے یونیورسٹی بنائی تھی، جو اب بھنور میں پھنس گئی ہے تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے ان تمام الزامات کو مسترد کیاہے۔جانچ ایجنسیوں کی تحقیقات جس سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، اس کی بنیادپر یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس یونیورسٹی کو دہشت کی نرسری قراردے کربند کردیا جائے گا۔یہاں بنیادی سوال ان طلباء کے مستقبل کا ہے جو یہاں بھاری فیس دے کر تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں زیرتعلیم چالیس فیصد طلباء کا تعلق وادی کشمیر سے ہے۔ جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے دہلی دھماکے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”قصورواروں کو سخت سزا دی جائے مگر تمام کشمیریوں کو دہشت گرد نہ سمجھا جائے۔ مٹھی بھر عناصر ہی پورے کشمیر کی بدنامی کا باعث ہیں۔“
 بلاشبہ پیر کی شام لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے پاس ہوئے زبردست دھماکے سے دہلی ہی نہیں پورا ہندوستان دہل گیا۔دھماکہ انتہائی بھیڑ بھاڑ والے لال قلعہ اور چاندنی چوک علا قہ میں ہوا، جس کی زد میں درجنوں بے گناہ افراد آئے۔ دھماکہ اتنا زبردست تھا کہ اس کی آوازیں کئی کلومیٹر دور تک سنائی دیں اور چاندنی چوک بازار لرز اٹھا۔ کہا جارہا ہے کہ دھماکہ خیز مادہ ایک کار کی ڈگی میں چھپا ہوا تھا جسے ایک کشمیری ڈاکٹرمحمدنبی عمر چلارہا تھا۔ وہ خود بھی اس کارروائی میں ہلاک ہوگیا ہے۔ڈاکٹر نبی کی پہچان کے لیے پولیس نے کشمیرسے اس کی والدہ کا ڈی این اے حاصل کیا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس دہشت گردانہ کارروائی میں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر ملوث تھے، ان کا تعلق کشمیری انتہاپسندوں سے تھا۔پولیس نے اسی روز صبح فریدآباد سے بڑی تعداد میں آتش گیر مادہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس سلسلے میں جموں کشمیر اور ہریانہ پولیس کی مشترکہ کارروائی میں فرید آباد سے ڈاکٹر مزمل احمد کو گرفتار کیا گیاجو الفلاح یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی خدمات انجام دے رہا تھا۔ لکھنؤ سے ڈاکٹر مزمل  کی دوست ڈاکٹر شاہین شاہد اور ڈاکٹر عادل احمد سمیت سات لوگوں کو پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا تھا۔ اس کے بعد کانپور اور ہاپوڑ سے بھی دوکشمیری ڈاکٹروں کی گرفتاری عمل میں آئی۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ سبھی جیش محمد اور انصارغزوہ ہند کے عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر مزمل کے دوٹھکانوں سے 350کلوامونیم نائٹریٹ اور 2500کلو دھماکہ خیز مادہ بنانے والا کیمیکل برآمد ہوا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ ڈاکٹر سرحد پاربیٹھے اپنے آقاؤں کے رابطے میں تھے۔یہ تو وہ تفصیلات ہیں جوپولیس کی فراہم کردہ  ابتدائی معلومات کے ذریعہ حاصل ہوئی ہیں، لیکن اس انتہائی خطرناک دہشت گردانہ کارروائی کا اصل مجرم کون تھا،اس کی نقاب کشائی جانچ مکمل ہونے کے بعد ہی ہوپائے گی۔گودی میڈیا نے تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ہی مجرموں کی نشاندہی کرنا شروع کردی ہے اور روزانہ نئی نئی کہانیاں بیان کی جارہی ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ  اس دھماکہ میں جو مادہ استعمال ہوا ہے، وہ کسی بم کا نہیں معلوم ہوتا کیونکہ مرنے والوں اور زخمیوں کے جسموں پر کسی ایسے آتش گیر مادے کے نشان نہیں ملے ہیں جو  عام طورپر بم دھماکہ کے بعدمتاثرین کے جسم پر ملتے ہیں۔
 اس دھماکہ کے بعد ملک کی کئی ریاستوں میں ریڈالرٹ جاری کردیا گیا ہے اور راجدھانی دہلی ہائی الرٹ پر ہے۔چھان بین کی ذمہ داری قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کے سپردکی گئی ہے اور اس معاملے میں یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔گرفتار شدہ ڈاکٹروں میں چار کا تعلق اسی یونیورسٹی سے بتایا جارہا ہے۔ دھماکے میں اپنی کار کے ساتھ ہلاک ہونے والے ڈاکٹر محمدنبی عمرکو بھی اسی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر بتایاگیا ہے، لیکن خود یونیورسٹی انتظامیہ نے باضابطہ بیان جاری کرکے اپنے اوپر عائد کئے جارہے سبھی الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ کالج کی وائس چانسلر پروفیسر بھوپندر کور آنند کا کہنا ہے کہ’’یونیورسٹی کا ان دوڈاکٹروں سے کوئی واسطہ نہیں ہے جنھیں جانچ ایجنسیوں نے حراست میں لیا ہے۔“
پولیس نے فرید آباد میں جس ڈاکٹر مزمل شکیل کے گھر سے 2900 کلو دھماکہ خیز مادہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے، اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ الفلاح یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی خدمات انجام دے رہا تھا۔اس کے علاوہ لکھنؤ سے گرفتار کی گئی ڈاکٹر شاہین سعید اور ہلاک شدہ ڈاکٹر محمدعمر نبی بھی الفلاح یونیورسٹی میں برسرکار تھے۔ قاضی کنڈ کشمیر کے باشندے ڈاکٹر عادل احمد کو سہارنپور کے ایک نجی اسپتال سے گرفتار کیا گیا تھا،جبکہ  ڈاکٹر سجاد احمد کی گرفتاری کشمیر کے پلوامہ علاقہ سے کی گئی ہے۔ ڈاکٹر سجاد احمد کی شادی گزشتہ اکتوبر میں انجام پائی تھی۔بعدازاں کانپور سے کارڈیولوجسٹ ڈاکٹر محمدعارف کو بھی گرفتار کیا گیا جو ڈاکٹر عمر نبی کا کلاس میٹ رہ چکا ہے۔ہاپوڑ کے جی ایس میڈیکل کالج سے ڈاکٹر فاروق احمد ڈار کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ ان سبھی کا تعلق کشمیر سے ہے۔یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے درس وتدریس اور طبی شعبے میں خدمات انجام دے رہے یہ نوجوان ڈاکٹر آخر کیونکر ایک دہشت گردانہ نیٹ ورک میں شامل ہوئے؟ایک ڈاکٹر کے لیے کامیاب زندگی گزارنے کے بھرپور مواقع ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تعلیم پر بہترین توانائی اور پیسہ خرچ  کرتا ہے۔ اس سب کے باوجود وہ اپنے کیریر کو تباہ کرنے پر کیوں آمادہ ہوئے، یہ تحقیق کا موضوع ہے۔ اگر واقعی یہ تمام ڈاکٹر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شامل تھے تو یہ انتہائی تشویس کی بات ہے۔ مگرغیرجانبدارانہ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا درست نہیں ہوگا۔
پولیس اورتحقیقاتی ایجنسیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر مزمل نے فریدآباد میں 2900کلو دھماکہ خیز مادہ چھپا کررکھا ہوا تھا۔ یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ آخر یہ مادہ کہاں سے آیا اور اتنے خطرناک مادے کو یہاں کیسے پہنچنے دیا گیا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد نبی اپنی کار میں فریدآباد سے نہایت تباہ کن مادہ لے کر صبح آٹھ بجے نکلا۔ وہ دوپہر میں لال قلعہ کی پارکنگ تک پہنچا اور بڑے اطمینان سے اس نے پارکنگ سے نکل کر انتہائی بھیڑ بھاڑ والے علاقہ میں پہنچ کر دھماکہ کردیا۔ اس درمیان کہیں بھی اس کی کار کی تلاشی نہیں لی گئی۔ یہ سوال ہماری سیکورٹی ایجنسیوں سے پوچھا جانا چاہئے کہ کوئی شخص کس طرح آسانی کے ساتھ تقریباً تین ہزار کلو آتش گیر مادہ جمع کرسکتا ہے اور کوئی کس طرح دھماکہ خیز مادہ پورے دن اپنی کار میں لے کر گھوم سکتا ہے۔
دہلی کے انتہائی تباہ کن دھماکہ کے بارے میں اپوزیشن نے حکومت سے کئی تیکھے سوال پوچھے ہیں۔ کانگریس صدر ملکا ارجن کھڑگے نے لال قلعہ دھماکے کو مرکزی حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے اس پر سیکورٹی کوتاہی کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ”یہ واقعہ قومی دارالحکومت میں حکمرانی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔“ کھڑگے نے سیکورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ”بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس انٹیلی جنس ایجنسیاں، آئی بی، سی بی آئی اور بہت سی دوسری ایجنسیاں موجود ہیں۔ ان تمام ایجنسیوں کے ساتھ حکومت بھی ناکام رہی ہے۔“
ہماری اعلیٰ قیادت اس معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس شام لال قلعہ کے پاس دھماکہ ہوا، اس کی اگلی صبح وزیراعظم نریندر مودی بھوٹان نریش کی برتھ ڈے پارٹی میں شریک ہونے بھوٹان پہنچ گئے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنا بھوٹان دورہ ملتوی کرتے اور اعلیٰ سیکورٹی اہل کاروں کے ساتھ میٹنگ کرکے اس معاملے میں ہوئی غفلت پر جواب طلب کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ظاہر ہے اس قسم کے بھیانک دہشت گردانہ حملوں کو نہ روک پانے کی پہلی ذمہ داری خفیہ ایجنسیوں پر عائد ہوتی ہے، لیکن ملک میں آج تک اس قسم کے معاملات میں کسی کی جوابدہی نہیں طے کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی وارداتیں دن بہ دن بڑھتی چلی جارہی ہیں اور عام آدمی کی زندگی غیر محفوظ ہوتی چلی جا رہی ہے۔