Jadid Khabar

افغان۔پاک ’دوستی کا دروازہ‘ٹوٹ گیا

Thumb

ابھی غز ہ میں پوری طرح امن قائم بھی نہیں ہوا تھا کہ افغان۔ پاک سرحد پر تصادم کی خبریں آنے لگیں۔افغان طالبان نے حملہ کرکے پاکستان کے 50 سے زائد فوجیوں کو ہلاک کیا تو پاکستانی افواج نے جوابی کارروائی میں 200سے زائد طالبان لڑاکوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ جس روز افغانستان اور پاکستان کے درمیان یہ تصادم ہوا،اس روز افغان وزیرخارجہ مولوی متقی ہندوستان کے دورے پر تھے اور یہاں ان کی خوب خاطر تواضع ہورہی تھی۔ یہ وہی طالبان ہیں جنھیں ہندوستان نے ہمیشہ شجر ممنوعہ سمجھا اور کبھی انھیں منہ نہیں لگایا، لیکن اب جب سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی خبریں آرہی ہیں، صورتحال بدل گئی ہے۔ہندوستان نے نہ صرف طالبان کے ساتھ باضابطہ سفارتی رشتے قائم کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ افغانستان میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی بات بھی کہی ہے۔ اس طرح یہ بات درست ثابت ہوئی ہے کہ جیسے سیاست میں کوئی کسی کا مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا اسی طرح سفارت میں بھی دوست اور دشمن تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ 
پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان نے اس پر حملے ہندوستان کی شہ پر کئے ہیں جبکہ ہندوستان نے اس کی سختی سے تردید کردی ہے۔معاملہ جو کچھ بھی ہویہ حقیقت ہے کہ اب دوایسے ملک تصادم کی راہ پر ہیں جو گزشتہ چاردہائیوں سے اپنی سرزمین پر بیرونی طاقتوں کی جنگ لڑرہے ہیں اور جنھوں نے اس عرصے میں اپنے لاکھوں شہری گنوادئیے ہیں۔ دس سال روسی اور بیس سال امریکی قبضے کے بعد اب جبکہ افغانستان طالبان کے قبضے میں ہے تو یہاں سیاست اور سفارت نئی کروٹ بدل رہی ہے۔وہ امریکہ جس کی قیادت میں ناٹو افواج نے افغانستان پر بیس برسوں تک اپنا قبضہ برقرار رکھا اور 2021 میں اقتدار طالبان کو سونپ کر رفوچکر ہوگیا، وہ ایک بار پھر افغانستان سے بگرام ائیربیس واپس مانگ رہا ہے۔امریکہ کو بگرام ائیربیس اس لیے چاہئے تا کہ وہ یہاں سے چین پر نظر رکھ سکے۔ اگر صدرٹرمپ کے اس مطالبے نے زور پکڑا تو افغانستان میں ایک بار پھر امریکی تسلط کا دور شروع ہوگا۔ افغانستان نے صدرٹرمپ کے اس بیان پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے جس میں انھوں بے بگرام ائیر بیس واپس لینے کی بات کہی ہے۔ادھر پاکستان کو پاشنی پورٹ دینے کی امریکی دلچسپی سے طالبان ہوشیار ہوگیا ہے۔ افغان ماہرین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کی بڑھتی ہوئی دوستی سے کابل کو اپنی حفاظت اور خودمختاری پر خطرہ محسوس ہورہا ہے۔
فی الحال افغانستان اور پاکستان کے درمیان 48 گھنٹے کے جنگ بندی معاہدے میں توسیع ہوگئی ہے اور اس کا اگلا دارومدار دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات پر ہے، جس میں شرکت کے لیے دونوں ملکوں کے وفود دوحہ پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان ان دہشت گردوں کو قابو میں کرے جو اس کی سرزمین سے پاکستان مخالف کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ حالانکہ افغانستان نے اس الزام کو یہ کہتے ہوئے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان غلط اطلاعات اور کشیدگی پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔اس دوران گزشتہ جمعہ کو ہوئے ایک خودکش حملے میں آٹھ پاکستانی فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستان نے بھی فضائی حملے کرکے کئی لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس طرح دوحہ میں امن مذاکرات کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کی سرحد پر جھڑپوں کی خبریں بھی مل رہی ہیں۔
گزشتہ بدھ کو جب پاکستان اور افغانستان کی درمیان سرحد پر جھڑپیں ہوئیں تو دونوں نے ایک دوسرے پر کسی اکساوے کے بغیر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ یہ سنگھرش افغانسان کے اسپن بولدک اور پاکستان کے چمن علاقہ میں ہوا۔ پاکستانی فوج نے کہا کہ افغان طالبان نے ’فرینڈشپ گیٹ‘ (دوستی کا دروازہ) تباہ کرکے سرحد پار تجارت کو نقصان پہنچایا ہے۔ دوستی کا یہ دروازہ کیا ہے، اسے جاننا بے حد ضروری ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ افغانستان گزشتہ چالیس سال سے بیرونی جارحیت کا شکار ہے جس کی وجہ سے بنیادی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ یہاں بنیادی ضرورتوں کی اشیاء پاکستان سے امپورٹ ہوتی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد ہے اوریہ ہی دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان جھگڑے کی جڑ ہے۔ اس تنازعہ کی جڑیں 132سال پرانی ہیں۔ 1893میں جب برطانوی حکومت نے دونوں کی سرحدوں کا جو تعین کیا تھا، اسے افغانستان نے کبھی قبول نہیں کیا۔ تقریباً2640کلومیٹر طویل یہ سرحدی لائن افغان پشتون علاقے کو دوحصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اسی سرحد کے معاملے میں آئے دن دونوں ملکوں میں تصادم ہوتا رہتا ہے۔لیکن گزشتہ بدھ کو جو کچھ ہوا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ نہ ہی اتنے پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے اور نہ ہی پاکستان نے اس بڑی تعداد میں طالبان لڑاکے ہلاک کئے تھے۔
سبھی جانتے ہیں کہ جب جب افغانستان پر بیرونی حملہ ہوا تو افغان شہریوں کا سب سے محفوظ ٹھکانہ پاکستان ہی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں تقریباً 70/ لاکھ افغان پناہ گزین ہیں جو وہاں باقاعدہ کاروبار اور تجارت کرتے ہیں، لیکن وہ اسے اپنا وطن تسلیم نہیں کرتے۔ پاکستان کی تلملاہٹ کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔ پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے ”یہ جس تھالی میں کھاتے ہیں، اسی میں چھید کرتے ہیں۔اب یہ نہیں چلے گا۔“واضح رہے کہ پاک۔ افغان جھڑپوں کا سلسلہ گزشتہ جنوری سے جاری ہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں پناہ گزین افغان باشندوں میں سے صرف چودہ لاکھ کے پاس رجسٹریشن کارڈ ہیں۔ باقی پناہ گزینوں کو غیر قانونی قراردے کر پاکستان سے نکالنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ طالبان نے اسے ”انسانی بحران“ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو جبراً واپس کرنا دشمنی میں اضافہ کا سبب ہوگا۔افغانستان کی تقریباً پوری تجارت کراچی اور گوادر پورٹ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ پاکستان جب چاہے سرحد پار کے راستے بند کرسکتا ہے، اس سے افغانستان کی معیشت چرمراسکتی ہے۔ 
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا دوسرا سبب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کی سرگرمیاں ہیں جو پاکستان کے لیے مستقل دردسر بنی ہوئی ہیں۔پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین سے اس کے ملک میں حملے کرتا ہے۔ افغان طالبان انھیں پناہ دے رہے ہیں اور جھگڑے کی اصل وجہ یہی ہے۔ٹی ٹی پی نے گزشتہ پندرہ برس میں پاکستان میں سیکڑوں دہشت گردانہ حملے کئے ہیں۔ 2014 میں پشاور کے آرمی اسکول میں کیا گیا خوفناک حملہ بھی اسی نے انجام دیا تھا جس کے نتیجے میں 132کمسن بچوں کی جانیں چلی گئی تھیں۔ ٹی ٹی پی کا بنیادی مقصد پاکستان میں ’طالبان جیسا اسلامی نظام‘نافذ کرنا ہے۔ خیبر پختونخواصوبے اور سرحد کے قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی کی گرفت مضبوط ہے۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان نے افغانستان کے علاقوں میں فضائی حملے کئے ہیں۔فی الحال پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی استواری میں پاک فوج سب سے بڑح رکاوٹ ہے۔سیاسی تجزیہ کار معین گل کہتے ہیں کہ ”پاکستان کی اصل طاقت فوج کے ہاتھوں میں ہے۔ جب بھی حکومت تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے تو پاکستانی فوج کی کوئی معاندانہ کارروائی سب کچھ بگاڑ دیتی ہے۔“