Jadid Khabar

جب دہلی میں گجرات دہرایا گیا

Thumb

دہلی کے غریب اور مجبور عوام نے گذشتہ ہفتہ آگ اور خون کے جس دریا کو پار کیا ہے‘اس کا درد اور کرب اْن کے علاوہ کوئی دوسرا محسوس نہیں کرسکتا۔اپنی طویل صحافتی زندگی میں مجھے پہلی بار ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں اس بربریت اور سفاکی کو پوری طرح الفاظ میں بیان نہیں کر پاؤں گا ‘جس کا شکاریہ غریب اور لاچار عوام ہوئے ہیں۔میں نے اپنی زندگی میں بے شمار فسادات کا عینی مشاہدہ کیاہے اور انتہائی سنگین حالات میں موقع پر جاکر رپورٹنگ بھی کی ہے۔ کئی بار فسادیوں اورپولیس کے ہاتھوں مرنے سے بھی بچا ہوں، لیکن گذشتہ چند روز کے دوران یہاں دہلی میں میری رہائش گاہ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر جواذیت ناک اور کرب ناک واقعات پیش آئے ہیں‘ انہوں نے مجھے بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا ہم اب ایک ایسی اندھی سرنگ میں داخل ہوچکے ہیں جس سے نکلنے کا راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔تین دنوں تک بلا روک ٹوک جاری رہنے والی اس قتل وغارت گری میں درجنوں بے گناہ انسان دردناک موت کا شکار ہوئے ہیں۔سینکڑوں اسپتالوں میں تڑپ رہے ہیں اور ہزاروں دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اربوں روپے کی املاک جلا کر خاک کردی گئیں ہیں۔تنگ وتاریک گلی کوچوں پر مشتمل مشرقی دہلی کی آبادیوں مصطفی آباد، کھجوری، چاند باغ، کراول نگر، شیو وہار اور موج پورمیں تباہی وبربادی کے دلخراش مناظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں دشمن کی فوج نے بمباری کی ہے اور زندہ رہنے کے تمام اسباب فنا کردئیے گئے ہیں۔ زندگی بھر کی محنت ومشقت کے بعد جمع کئے گئے اپنے مال واسباب کو کہیں راکھ اور کہیں کھنڈروں کی شکل میں دیکھ کر مجبور ولاچار لوگ دھاڑیں مار مار کر رورہے ہیں۔ان میں بے شمارغریب ایسے ہیں جودوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوپائیں گے۔ جس وقت تباہی و بربادی کی یہ داستان راجدھانی کی غریب آبادیوں میں رقم کی جارہی تھی تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ  راجدھانی میں ہی موجود تھے۔کہا جاتا ہے کہ پولیس ان کو تحفظ دینے میں مصروف تھی ‘اسی لئے وہ دہلی کے فساد زدہ علاقوں پر توجہ نہیں دے سکی۔قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جو پولیس والے فساد زدہ علاقوں میں موجود تھے‘ وہ لاچار اور مظلوم شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے فسادیوں کی مدد کررہے تھے۔ملک کی سب سے زیادہ پیشہ ور قرار دی جانے والی دہلی پولیس کا فرقہ وارانہ کردار تو اسی وقت بے نقاب ہوگیا تھا جب اس نے جامعہ کے طلبا پر قہر ڈھایا تھا۔پولیس اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے  اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے میں مشغول تھی۔
یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ یہ ملک کا پہلا فساد ہے جس کی تیاری اعلانیہ طور پر کی گئی تھی۔ گذشتہ دو ماہ سے حکمراں جماعت کے لوگ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلی اور دھمکی آمیز زبان استعما ل کررہے تھے اور پولیس خاموش تماشائی کے کردار میں نظر آرہی تھی۔ کسی کو اس بات کی فکر نہیں تھی کہ نفرت کی جو فصل بوئی جارہی ہے‘ اس کا نتیجہ کتنا بھیانک برآمد ہوگا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک حکمت عملی کا حصہ تھا اور سفاک قاتلوں کو اس یقین دہانی کے ساتھ میدان میں اتارا گیاتھا کہ وہ کچھ بھی کرلیں قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دہلی ہائی کورٹ کے جج ایس مرلی دھر نے دہلی پولیس کی بے عملی پر سوال اٹھایا اورزہر پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا تو راتوں رات ان کا تبادلہ کردیا گیا۔جن دوسرے ججوں کو اس مقدمے کی سماعت سونپی گئی،انھوں نے اٹارنی جنرل کی منشا کے مطابق اس معاملے کی سماعت ایک ماہ کے لئے ٹال دی۔ اس طرح ان بی جے پی لیڈروں کو کسی قانونی کارروائی کا کوئی خوف نہیں رہا ‘جنھوں نے حملہ آور وحشی درندوں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر بھرا تھا اور جس کے نتیجہ میں انھوں نے بلا خوف وخطر شمال مشرقی دہلی میں جہنم کی تخلیق کی ہے۔ دہلی پولیس ابھی تک ان لوگو ں کی شناخت نہیں کرپائی ہے جنھوں نے درندگی اور بربریت کی انتہائی وحشت ناک داستانیں رقم کی ہیں۔ ہاں پولیس نے قربانی کے بکروں کی تلاش شروع کردی ہے اور سب سے پہلے عام آدمی پارٹی کے میونسپل کونسلر طاہر حسین کو نشانہ پر لیاہے۔ان پر آئی بی افسر انکت شرما کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیاہے۔ان کا گھر اور فیکٹری سیل کردی گئی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے اپنے کونسلر طاہر حسین کا دفاع کرنے کی بجائے انھیں پارٹی سے برخاست کردیاہے اور ان کے لئے دوگنی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔حالانکہ طاہر حسین بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف الزامات بے بنیاد ہیں، لیکن پولیس کی سرگرمی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انھیں اس فساد کا ’ماسٹر مائنڈ‘ قرار دے کر کپل مشرا کو 'کلین چٹ' دے گی۔آنے والے دنوں میں قربانی کے مزید بکروں کو تلاش کرکے انھیں فساد پھیلانے کا مجرم گردانا جائے گا اور اس بات کی پورا امکان ہے کہ فساد پھیلانے کی دھمکی دینے والے کپل مشرا سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ نہ ہی بی جے پی کے انتخابی جلسہ میں دیش کے غداروں پر گولیاں برسانے کے نعرے لگوانے والے وزیر مملکت انوراگ ٹھاکر کا کچھ بگڑے گا اور نہ ہی دہلی کی مسجدوں پر بلڈوزر چلوانے کی کھلے عام دھمکیاں دینے والے پرویش ورما کو کوئی گزند پہنچے گی۔ کیونکہ ان تمام لوگوں کو حکومت اور وزیرداخلہ امت شاہ کا تحفظ حاصل ہے جو دہلی پولیس کو کنٹرول کرتے ہیں۔فسادیوں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت تھی کہ انھوں نے کئی مسجدوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور ان کی میناروں پر بھگوا جھنڈا پھیرا دیا گیاہے۔ظلم وبربریت کی داستانیں اتنی ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب بھی کم ہوگی۔ اپنی تباہی اور بربادی ، درندگی اور سفاکی کے اعتبار سے یہ حالیہ تاریخ کا سب سے خوفناک فساد ہے۔امید کی کرن صرف اتنی ہے کہ کئی ہندوؤں نے اپنے مسلمان پڑوسیوں کی اور کئی مسلمانوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں کی جانیں اپنی جانوں پر کھیل کر بچائی ہیں۔
شمال مشرقی دہلی کے جن علاقوں میں تباہی وبربادی کی داستانیں رقم ہوئی ہیں انھیں عرف عام میں جمنا پار کہا جاتا ہے۔یہاں غریب لوگوں کی انتہائی گھنی آبادیاں ہیں۔ ان میں سے بیشتر یومیہ مزدور ہیں اور باقی لوگ چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہیں۔ تنگ وتاریک گلی کوچوں پر مشتمل جمنا پار کی ان آبادیوں میں زندگی کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، لیکن ان آبادیوں کی خوبی یہ رہی ہے کہ یہاں کے ہندو مسلم باشندوں نے ہمیشہ بنیادی ضرورتوں سے سروکار رکھا ہے اور وہ فرقہ وارانہ موضوعات سے دور رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر جگہوں پرمسلمان ، ہندووٓں کے اور کچھ ہندو مسلمانوں کے کرایہ دار ہیں۔ملی جلی آبادیوں میں لوگوں کے مذہب کا پتہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہ لوگ زندگی کے جن مسائل سے ہرروز جوجھتے ہیں ، ان میں انھیں اتنی فرصت ہی کہاں ہے کہ وہ ان موضوعات پر سوچ سکیں۔ لیکن گذشتہ ایک ہفتہ کے واقعات نے ان سب لوگوں کو ہندووٓں اور مسلمانوں کے خانوں میں تقسیم کردیا ہے۔ گذشتہ پیر، منگل اور بدھ کے روز ان علاقوں میں جس طرح چن چن کر مسلمانوں کے گھروں، دوکانوں اور کارخانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس نے تمام لوگوں کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ دہلی میں وہی سب کچھ دوہرایا گیا ہے جو2002 میں گجرات کی سرزمیں پر مسلمانوں کے ساتھ ہواتھا۔ وہاں بھی پولیس اور سرکاری مشنری کی مدد سے وحشی درندوں کو مسلمانوں کے قتل وغارت گری کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی اور یہاں بھی تین روزتک جمنا پار میں فسادیوں کو پوری آزادی کے ساتھ سب کچھ کرنے کی چھوٹ دی گئی۔ تین روزبعد اس وقت کرفیو نافذ کرنے اور دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دئیے گئے جب سب کچھ تباہ وبرباد ہوچکا تھا۔ گجرات کی نسل کشی کے دوران بھی یہی سب کچھ ہواتھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس وقت گجرات کا وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کون تھا۔ کیونکہ سبھی لوگ ان کے نام اور کردار سے واقف ہیں۔
حکومت نے شمال مشرقی دہلی کے فساد کی آڑلے کرسی اے اے کے خلاف دہلی میں جاری احتجاجی دھرنوں کو ختم کردیا ہے اور احتجاج منظم کرنے والوں کو سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیاہے۔ اب صرف شاہین باغ میں خواتین کا دھرنا جاری ہے‘ جسے ختم کرنے کے لئے طرح طرح کی دھمکیا ں دی جارہی ہیں۔پہلی نظر میں شمال مشرقی دہلی کو آگ لگانے کامقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کی سازش تھی جوملک گیر سطح پر شہریت ترمیمی قانون، این آرسی اور این پی آر کے خلاف تحریک چلارہے ہیں۔ اس تشدد کاآغاز بھی جعفرآباد میٹرو اسٹیش کے نیچے دھرنے پر بیٹھی خواتین کو ہٹانے کے نام پر ہی کیا گیاتھا‘جہاں بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے ڈی سی پی کی موجودگی میں دھمکی دی تھی کہ اگر یہ دھرنا ختم نہیں کیا گیا تو وہ اسے خود ختم کردیں گے۔ اس دھمکی کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ شمال مشرقی دہلی کی قتل وغارت گری کے بعد ملک کے دیگر علاقوں میں احتجاج کرنے والے فکر مند ضرور ہیں ، لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاہ قانون کے خلاف پرامن تحریک جاری رہنی چاہیے اور جمہوریت وآئین کی قبر کھودنے والوں کو یہ باور کرادینا چاہئے کہ وہ ڈرنے والے نہیں ہیں۔