Jadid Khabar

فائدہ کس کو ہوا؟

Thumb

آرایس ایس کے ہیڈ کوارٹر کے اجلاس میںسابق صدر پرنب مکھرجی کی شرکت پر ہندستان بھر میں کئی ہفتے سے زوردار بحث اورمباحثہ ہورہاتھا جس میں جولوگ آرایس ایس کے فلسفہ اورقاعدہ قانون سے مخالفت کرتے ہیںان میں کثیر تعداد ان کی تھی جو مکھرجی بابو کو ایک ایسی تنظیم کے اجلاس میں جانے کوناپسندیدگی اورتشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے جو ملک کے دستور اوررواداری اوراخوت و بھائی چارہ کی دشمن ہے لیکن ان میںایسے لوگ بھی تھے جن کی تعداد انتہائی کم تھی جومکھرجی بابو پراعتماد رکھتے تھے کہ وہ ایک آزاد شہری ہیں انہیں کہیں جانے سے روکانہیں جاسکتا ہے وہ اب کسی جماعت یاپارٹی سے منسلک نہیں ہیں وہ سیکولرزم ، تکثیریت اوررواداری اورتحمل و برداشت پر اپنی بات پیش کریں گے  اورجولو گ آرایس ایس اوربی جے پی سے تعلق رکھتے تھے ان کاایک ہی کام تھا کہ شرکت سے روکنے والوں کوبرابھلا کہیں اورآزادی رائے، جمہوریت کی بات کررہے تھے حالانکہ یہ لوگ آزاد رائے اور جمہوریت کے بڑے اور پرانے دشمن ہیںان کو ایک کلچر اور ایک مذہب کی حکومت سے دلچسپی ہے۔ خاص طورسے یہ لوگ اقلیتوں کے دشمن ہیںاورغریبوں اوردلتوں کو دیکھناپسند نہیں کرتے ۔ امیروں کے ایک طرح سے ترجمان اورحاشیہ بردار ہیں۔ پرنب مکھرجی بابو کو نہ ان کی بیٹی شرمشٹھا مکھرجی روک سکیں اورنہ ہی کانگریس کے چھوٹے بڑے لیڈران کامکھرجی بابو پر کوئی اثر ہوا حالانکہ ان کی بیٹی نے جو بیان دیاتھا وہ اسی روز اخباروں اورٹیلی ویژن چینلوں پر آیا جس روز وہ روانہ ہونے والے تھے ۔ بیٹی نے مخالفت میںسب سے زیادہ سخت ترین الفاظ کااستعال کیاتھا ’’یہاں تک کہ آرایس ایس کو بھی یقین نہیں ہے کہ آرایس ایس کو آپendorse(توثیق) کرنے جارہے ہی لیکن آپ کی تقریر کو لوگ بھول جائیں گے مگرآپ کا ویزول(شرکت کی تصویریں) باقی رہے گا جس کابھرپور پرچار ہوگا آپ کی ان کہی اورمن گھڑت باتوں کے ساتھ آپ کی شرکت سے افواہیں ، من گھڑت کہانیاں پیش کی جائیں گی اوراس پرکچھ لوگ یقین بھی کریں ، آپ کو آرایس ایس کے شعبہ کے گندہ کھیل اورشعبدہ بازی سے ہوشیار رہناچاہئے‘‘۔
ان کی بیٹی کی یہ باتیں گزشتہ روز(۷ جون ہی سے جس روزمکھرجی بابو نے تقریر کی) ہی سے صحیح ثابت ہونے لگیں۔ بی جے پی کے نرسمہا رائو نے ٹی وی چینل پربیٹھ کر کہاکہ مکھرجی بابو اور موہن بھگوت کی تقریروں کی روح ایک ہی تھی دونوں نے کہاکہ ہندستانیت پہلے، رائو نے کہاکہ مکھرجی بابو نے کہاکہ مسلم حملہ آورہیں۔ اس پرمحمد سلیم ایم پی نے کہاکہ ان کومسلم حملہ آور کی بات یادرہ گئی اوریہ مکھرجی بابو کی پوری تقریر جو آرایس ایس کے فلسفہ اورنظریہ کے خلاف تھی وہ بھول گئے۔ بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو جو آرایس ایس کے پہلے ترجمان تھے کہاکہ مکھرجی بابو اورموہن بھگوت نے دونوں بنیادی ایشو کواٹھایا ۔ کلکرنی نے جوکبھی بی جے پی میںشامل تھے اورایل کے اڈوانی کے دست راست تھے ٹی وی چینل پر کہاکہ مکھرجی بابو کی بہت ہی بہترین تقریر ہوئی آرایس ایس کو آج کے حالات میں انہوں نے آئینہ دکھایا کہ جدید ہندستان میں ان کی پالیسی، فلسفہ اورنظریہ ناقابل قبول ہے ان کواپنے رجحانات اورنظریہ کو یکسربدلنے کی ضرورت ہے۔
اس طرح کی باتیں حمایت اورمخالفت میںپہلے بھی ہوئی ہیں اورشرکت کے بعد بھی شروع ہوگئی ہیں ۔ٹیلی گراف نے آج (8 جون2018) رام مادھیو کی طرف سے آر ایس ایس کے بانی اورگرو  کے بی ہیڈ گیور کے اقوال دئیے گئے صفحہ اول پر جو انہوں نے دسمبر2013 ء میںٹوئٹ کیاتھا جو انتہائی زہریلے اورانسانیت دشمن اقوال ہیں ۔ ان اقوال کااوپر لکھاہوا کہ ’’بڑے بیٹے کی وراثت‘‘ (Legacy of great son) اسی عنوان کے نیچے مکھرجی بابو نے آرایس ایس کے بانی کے بی ہیڈگیور کے پیدائشی مکان پر جاکر جو وزیٹرس بک میں لکھا ہے وہ بھی دیا ہے:
"Today I came here to pay my respect and homage to a great son of  mother India"
(میں آج یہاں آیا ہوں مدر انڈیا کے ایک عظیم سپوت کااحترام کرنے اورخراج عقیدت پیش کرنے کے لئے)
ہیڈ گیور کے چاراقوال میں جوانسانیت دشمن اور نفرت اورکدورت سے بھرے ہوئے ہیں وہ ہر قول میں کہتے ہیں کہ ہندستان ہندوئوں کے رہنے کی جگہ ہے کسی اورکے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔
دی ٹیلی گراف نے مکھرجی بابو کو آئینہ دکھایا ہے کہ جس کو ہندستان کاعظیم سپوت یابیٹا کہہ رہے ہیں وہ کس قدر انسانیت دشمن اوراقلیت دشمن ہے کیا آپ ایسے شخص کو خراج عقیدت پیش کرنے گئے تھے؟
دیکھا جائے تو موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کو مکھرجی بابوکی موجودگی اور شرکت سے من گھڑت کہانیوں کاپرچار کرنے کاموقع مل گیااور آر ایس ایس کادوسرا بڑا فائدہ ہواکہ ہر ٹی وی چینل میں آرایس ایس کو زبردست Coverage(تشہیر) ملی۔ مکھرجی بابو کو چند دنوں تک Coverageملا جومکھرجی بابو کو بے حدمرغوب اورپسندیدہ ہے۔
اس طرح سے دونوں فریقین کااپنااپنا مقصد پورا ہوامکھرجی بابو ایک فرد کانام ہے جو آج ہیں کل نہیں رہیں گے مگرآرایس ایس ایک شرانگیز ادارہ کانام ہے جو 1925ء سے قائم ہواجس کے بارے میں مکھرجی بابو کوخوب معلوم ہے 2010میںانہوں نے کانگریس کے اجلاس میں خود ایک تجویز پیش کی تھی کہ آرایس ایس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اس کی دہشت گردی پرانگشت لگانا ضروری ہے۔آج مکھرجی بابو اپنی کہی باتوں کو قے کررہے ہیں اورسابق صدر ہونے کی وجہ سے آرایس ایس کو تقویت بخش رہے ہیں۔ سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے بہت ہی اہم بات کہی ہے کہ ’’پرنب دا اپنی تقریر میں مہاتماگاندھی کے بہیمانہ قتل کی واردات کاذکر کرنا بھول گئے جس کے قتل پر بقول سابق وزیرداخلہ سردار پٹیل آرایس ایس کے لوگوں نے خوشیوں کامظاہرہ کیاتھااورمٹھائیاں تقسیم کی تھیں‘‘۔میرے خیال سے پرنب بابو کاوہ حلقہ جہاں سے ان کی ترقی ہوئی اورترقی کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے صدر جمہوریہ بنے وہ ناراض اورناخوش رہے گا اوراس حلقہ میںا ب ان کی شاید ہی کوئی پذیرائی کرے گا کانگریسی حلقہ میں ان کا بھی کم و بیش وہی حشر ہوگا جو سابق وزیراعظم نرسمہارائو کاہوا۔ جہاںتک آرایس ایس کامعاملہ ہے وہ بھی ا ن کی تقریر کی وجہ سے ان کو شاید ہی دوبارہ منہ لگائیں اس طرح پرنب دا نے گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ ویسے نقصان ہندستان کا ہوا ورہندستان کے پرامن شہریوں کا تھوڑی دیر یاچند دنوں کے لئے آرایس ایس نے اپنی شاطرانہ چال سے پورے ہندستان کی توجہ آرایس ایس کے ہیڈکوارٹر ناگپور کی طرف مبذول کرالیاتھا ۔ یہ چرچا کچھ اوردنوں تک جاری رہے گا۔