Jadid Khabar

اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکالا جائے، ابراہیم رئیسی

Thumb

ایران میں اسلامی انقلاب کے 45 سال مکمل ہونے پر اتوار کو ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں صدر ابراہیم رئیسی نے غزہ جنگ کے حوالے سے اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ایران میں گیارہ فروری 1979 ء میں آنے والے اسلامی انقلاب کی 45 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب کا انعقاد ہوا جس میں صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے خطاب میں تنازعہ مشرق وسطیٰ پر خاص طور سے روشنی ڈالی۔ ریئیسی نے غزہ جنگ کے تناظر میں ایران کے دیرینہ حریف ملک اسرائیل کی شدید مذمت کی۔ ایرانی صدر نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکال دیا جائے۔

45 برس قبل ایران میں امریکی حمایت یافتہ شاہ محمد رضا پہلوی کا تختہ الٹ دیے جانے کے بعد اسلامی انقلاب آیا تھا اور تب سے خطے کی اس اہم شیعہ مسلم طاقت کے اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ گہرے معاندانہ تعلقات چلے آرہے ہیں۔
گزشتہ سال سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ میں خونریز جنگ شروع ہوئی جس کے بعد سے پورے خطے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی اور ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپوں اور امریکی افواج کے درمیان تشدد میں بھی واضح اضافہ ہوا ہے۔
تہران میں منعقد ہونے والی تقریب میں ، صدر ابراہیم رئیسی نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت سے غزہ میں ''نسل کشی‘‘ کا ارتکاب کر رہا ہے۔ تہران کے آزادی اسکوائر پر انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ایرانی ساختہ میزائل اور دیگر ملٹری ہارڈ ویئر سمیت آزادی اسکوائر کے ارد گرد ایرانی ساختہ بیلسٹک میزائل، ڈرون اور سیٹلائٹ لانچرز نمائش کے لیے رکھے گئے تھے۔
تہران کے آزادی اسکوائر میں ایرانی باشندوں کا ایک بڑا ہجوم موجود تھا جس نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ کے بانی آیت اللہ، روح اللہ خمینی اور ایران کے ایک مقبول جنرل قاسم سلیمانی کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں۔ یاد رہے کہ جنرل سلیمانی جنوری 2020 ء میں ایک امریکی حملے میں مارے گئے تھے۔
2018 ء کے ایک تاریخی معاہدے سے واشنگٹن کی یک طرفہ دستبرداری کے بعد سے ایران سخت امریکی پابندیوں کی زد میں ہے جس نے اسے ایران کے جوہری پروگرام پر روک لگانے کے بدلے پابندیوں میں ریلیف دیا تھا۔ امریکہ کی طرف سے تہران پر مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج پر حملوں میں ''فعال طور پر سہولت کاری‘‘ فراہم کرنے اور یمن کے حوثی باغیوں کے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا جاتا ہے جبکہ ایران ان الزامات کی تردید کرچُکا ہے۔