ہفتہ کی صبح جب مہاراشٹرو جھارکھنڈ کے انتخابی نتائج آنے شروع ہوئے تو گودی میڈیا کے تمام چینلوں پر مہاراشٹر میں بی جے پی کی ”شاندار کامیابی“ کا ہیجشن تھا۔ٹی وی اسکرینوں سے جھارکھنڈ غائب تھا، کیونکہ یہاں بی جے پی کو شرمناک شکست ہوئی تھی اور اس کے مقابلے جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔گودی میڈیا کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ناظرین کو صرف آدھا سچ ہی دکھاتا ہے۔بلاشبہ مہاراشٹر میں بی جے پی اتحاد کی پراسرارکامیابی نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے، کیونکہ یہ وہی اتحاد ہے جس نے چند ماہ پہلے پارلیمانی چناؤ میں منہ کی کھائی تھی اور اس کے مدمقابل ’مہاوکاس اگھاڑی‘کو شاندار کامیابی نصیب ہوئی تھی۔اب وہی مہاوکاس اگھاڑی اتنی سیٹیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوپایا ہے جو اکیلے بی جے پی کی اتحادی شوسینا (شندے)نے حاصل کرلی ہیں۔شوسینا بال (ادھو)کے ترجمان سنجے راوت نے یہ کہتے ہوئے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ ”یہ مہاراشٹر کے عوام کی رائے نہیں ہے۔“ای وی ایم کے کمال کی جو داستانیں پچھلے دنوں ہریانہ کے چناؤ میں سنائی دی تھیں، وہی مہاراشٹر میں بھی سنی جارہی ہیں۔حقیقت کسی کو معلوم نہیں۔
مہاراشٹر میں سب سے زیادہ حیرت انگیزجیت بی جے پی نے حاصل کی ہے۔ 288نشستوں والی اسمبلی میں اس نے اپنے بل پر133سیٹیں جیت لی ہیں۔ یہ اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔بی جے پی نے 150سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور ان میں سے بیشتر پر کامیابی حاصل کرلی۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے مہاراشٹر میں جارحانہ ہندتو پر چناؤ لڑا۔ یہاں یوگی کے نعرے ” بٹیں گے تو کٹیں گے“ کے ساتھ وزیراعظم نے ”ایک ہیں تو سیف ہیں“کا نعرہ بھی دیا تھا۔ اس کے علاوہ نام نہاد ”ووٹ جہاد“ کو بھی خوب اچھالا گیا۔بی جے پی کو معلوم تھا کہ وہ ادھوٹھاکرے کے’نرم ہندتو‘کے مقابلے ’گرم ہندتو‘پر زیادہ ووٹ حاصل کرے گی۔ادھو ٹھاکرے شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے کے سیاسی وارث ہیں۔ وہی بال ٹھاکرے جنھوں نے مہاراشٹر میں بدترین مسلم دشمنی پر اپنی سیاسی عمارت تعمیر کی تھی۔ اسی بنیاد پر ان کی پارٹی نے کئی بار مہاراشٹر میں اقتدارحاصل کیا۔ جب تک بال ٹھاکرے اور ان کی سیاست زندہ رہی تب تک بی جے پی وہاں ان کے جونیر معاون کے طورپر ساتھ رہی۔ لیکن بال ٹھاکرے کی موت کے بعد بی جے پی نے خود اقتدار حاصل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا۔ادھو ٹھاکرے شروع میں بی جے پی کے ساتھ رہے، لیکن جھگڑا وزیراعلیٰ کی کرسی پر ہوا اور دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔ اپنا سیاسی وجودبچانے کے لیے ادھونے سیکولر اتحاد کا دامن تھاما۔اب وہ اس طرح ہندتو کی بات نہیں کرسکتے تھے جیسی کہ ان کے والد کرتے تھے۔ادھو ٹھاکرے نے پارلیمانی چناؤ کی طرح یہ الیکشن بھی کانگریس اور شردپوارکی این سی پی کے ساتھ مل کر”مہاوکاس اگھاڑی“ کے پرچم تلے لڑا، لیکن اس الیکشن میں ان تینوں میں سے کسی پارٹی کو اتنی سیٹیں بھی حاصل نہیں ہوسکیں کہ وہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی کرسی حاصل کرسکے۔مہاوکاس اگھاڑی کو حاصل ہونے والی سیٹیوں کی مجموعی تعداد 51ہے۔
عام خیال یہ تھا کہ اس اسمبلی الیکشن میں مہاراشٹر کے رائے دہندگان ’دغابازوں‘ کو سبق سکھائیں گے، لیکن انتخابی نتائج نے اس خیال کوغلط ثابت کیا۔ شیوسینا سے بغاوت کرنے والے ایکناتھ شندے نے ادھو ڈھاکرے کی شیوسینا کے مقابلے تقریباً تین گنا نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ادھو ٹھاکرے، بال ٹھاکرے کی وراثتسنبھالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔انڈیا اتحاد کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں جو سب چکنا چور ہوگئی ہیں۔عام خیال یہ تھا کہ ایکناتھ شندے نے جس طرح ادھوٹھاکرے کی پیٹھ میں خنجر اتار کر شیوسینا کو توڑا، اس کا بدلہ وہاں کے عوام ان سے ضرور لیں گے، لیکن انتخابی نتائج اس کے برعکس آئے ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی نے اب سے ڈھائی سال پہلے مہاراشٹر میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے تمام ہتھکنڈے اختیار کئے تھے۔نہ صرف شیوسینا میں نقب زنی کی گئی بلکہ کچھ عرصے بعدشردپوار کی قیادت والی این سی پی کو بھی توڑا گیا۔ شرد پوار کے بھتیجے اجیت پوار نے اپنے چچا سے بے وفائی کرکے بی جے پی اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔کہا جاتا ہے کہ اس بے وفائی کے پیچھے ان کے خلاف بدعنوانی کے معاملات تھے۔انھیں اس بات کا ڈر ستارہا تھا کہ کہیں ای ڈی اور سی بی آئی ان کے پیچھے نہ لگ جائے۔حالیہ الیکشن میں جب بی جے پی نے ’’ بٹیں گے تو کٹیں گے“ کے نعرہ کو اچھالا تواجیت پوار اس سے اختلاف کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ انھیں اپنے’مسلم ووٹ بینک‘ کی فکر لاحق تھی۔اس الیکشن میں مسلمانوں نے کیا کردار اداکیا یہ تو بعد میں پتہ چلے گا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ بعض سفید پوش مسلمانوں کی طرف سے ’مہا وکاس اگھاڑی‘ کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اپیلوں کاہندو رائے دہندگان پر گہرا اثر ہوا اور وہ ’مہایوتی‘کے حق میں متحد ہوگئے۔اس معاملے کو بی جے پی اور اس کی پروپیگنڈہ مشنری نے بھی خوب کیش کیا۔ یہاں دہلی میں بی جے پی ترجمان گورو بھاٹیہ نے اس موضوع پر باقاعدہ پریس کانفرنس کی اور مسلمانوں سے متحد ہوکر مہاوکاس اگھاڑی امیدواروں کو ووٹ دینے کی گئی اپیلوں کی کاپیاں لہرائیں۔ واضح رہے کہ اس قسم کی اپیلیں ماضی میں بھیمسلمانوں کے مخالفین کو فائدہ پہنچاتی رہی ہیں، اس بار ان اپیلوں نے انھیں کچھ زیادہ ہی فائدہ پہنچایا۔انڈیا اتحاد کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ جھارکھنڈکی81 میں سے اس نے 57 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ بی جے پی کو محض 23 سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا ہے۔
بہرحال اب جبکہ مہاراشٹر میں بی جے پی نے ’مہایوتی اتحاد‘میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرلی ہیں تو وہ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ کی کرسی پر اپنا دعویٰ کرسکتی ہے۔ یہ کرسی اب تک شیوسینا کو توڑنے والے ایکناتھ شندے کے پاس تھی اور بی جے پی اس وقت میں زیادہ سیٹیں ہونے کے باوجود اقتدار میں جونیئر ساتھی کے طورپر شریک تھی۔ سابق وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس اس حکومت میں نائب وزیراعلیٰ تھے۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اب بی جے پی پوری مضبوطی کے ساتھ وزیراعلیٰ کی کرسی پر اپنا دعویٰ پیش کرے گی۔اجیت پوار کے حامیوں نے بھی انھیں وزیراعلیٰ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مہاراشٹر اترپردیش کے بعد سب سے زیادہ نشستوں والی ریاست ہے۔یہ ملک کی اقتصادی راجدھانی بھی ہے اور یہاں دولت کی جتنی ریل پیل ہے اتنی کسی اور صوبے میں نہیں ہے۔ اس لیے ہرپارٹی مہاراشٹر کے اقتدار کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتی ہے۔مہاراشٹر میں بی جے پی کی غیرمتوقع کامیابی نے سب کو حیران کردیا ہے۔ اس کامیابی اسے اسے ایک نئی توانائی ملی ہے جس کا جشن بی جے پی کے دفاتر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اب اگلانمبر دارلحکومت دہلی کا ہے جہاں اگلے دوماہ میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ دہلی میں اس وقت عام آدمی پارٹی برسراقتدار ہے جس کی ناک میں بی جے پی نے دم کررکھا ہے۔دہلی کی آبکاری پالیسی میں رشوت خوری کے الزام میں خود پارٹی کے بانی اروندکجریوال کو جیل جانا پڑا ہے۔وہ تیسری بار اقتدار میں آنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، لیکن ان کی منزل آسان نہیں ہے۔