ہندوستان میں عازمین حج کو دی جانے والی سہولتیں عام طورپر سیاسی مقاصد سے لبریز ہوتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں مسلمانوںکو ووٹ بینک سمجھ کر ہی ان کے مذہبی امور میں معاونت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عازمین کی قرعہ اندازی سے لے کر ان کی روانگی تک ہر تقریب میں سیاست دانوں کی وافر مقدار میں موجودگی رہتی ہے۔ شاید اسی مقصد کے لئے مختلف ریاستوں میں حج ہاؤس بھی تعمیر کئے جاتے ہیں، جہاں عازمین حج کو عارضی قیام وطعام کے علاوہ سفری دستاویزات مہیا کرائے جاتے ہیں۔ لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حج ہاؤس سیاست کا اکھاڑہ بننے لگے ہیں۔ اس کی تازہ مثال مغربی اترپردیش کے غازی آباد شہر میں 51کروڑ کی لاگت سے تعمیر کیاگیا شاندار حج ہاؤس ہے جسے تعمیراتی خامیوں کے پیش نظر حال ہی میں حکومت نے سیل کردیا ہے۔ اترپردیش کی سماجوادی حکومت کے دور میں تعمیر کیاگیا یہ حج ہاؤس اپنی عمر کی ایک بہار بھی نہیں دیکھ پایا اور آلودگی کے مسائل میں الجھا کر غیر معینہ مدت کے لئے مقفل کردیاگیا۔ حالانکہ اب سے گیارہ برس پہلے جب اس حج ہاؤس کی تعمیر کے لئے غازی آباد شہر میں زمین نشان زد کی گئی تھی تو اسی وقت مخالفین نے اس پر اعتراضات درج کرائے تھے۔ پہلا اعتراض تو فرقہ پرست عناصر کو تھا جو یہ نہیں چاہتے تھے کہ ہنڈن ندی کے کنارے قیمتی زمین پر حج ہاؤس جیسی اسلامی عمارت تعمیر کی جائے۔ ان ہی لوگوں نے یہ بھی کہاتھا کہ ہنڈن ندی کے قریب ہندوستانی فضائیہ کا ایئربیس بھی واقع ہے، لہٰذا یہاں حج ہاؤس کی موجودگی سیکورٹی کے نقطہ نظر سے خطرناک ہوسکتی ہے۔ جب یہ اعتراضات خاطر میں نہیں لائے گئے تو دوسرا اعتراض ماحولیات کا دم بھرنے والوں نے اٹھایا اور ہنڈن ندی کے کنارے ایک عظیم الشان عمارت کی تعمیر کو ماحولیات کے لئے مضر قرار دیا۔ اس سلسلے میں باقاعدہ این جی ٹی (نیشنل گرین ٹریبونل) میں مقدمہ بھی قائم کردیاگیا۔ اتنا ہی نہیں حج ہاؤس کا سنگ بنیاد روکنے کے لئے طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور باقاعدہ تصادم کی نوبت بھی آئی۔ جیسے تیسے گیارہ سال کے عرصے میں یہ خوبصورت عمارت بن کر تیار ہوئی اور اسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاںؒ کی نسبت سے اعلیٰ حضرت حج ہاؤس کا نام دیاگیا۔ الیکشن قریب دیکھ کر سماجوادی سرکار کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے اس کا بڑی عجلت میں افتتاح تو کردیا لیکن عازمین حج کو اس کا استعمال ایک مہینے بھی نصیب نہیں ہوا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملک کی جن ریاستوں میں مسلمانوں کی خاطرخواہ آبادی ہے وہاں صوبائی حکومتوں کی طرف سے حج ہاؤس تعمیر کئے گئے ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی عمارت کوئی 30برس قبل ممبئی میں کرافورڈ مارکیٹ کے پہلو میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ کثیر منزلہ عمارت فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کی تعمیر بحری جہازوں سے ممبئی کے راستے سفر حج پر جانے والے عازمین حج کے لئے کی گئی تھی۔ لیکن جب بحری جہازوں سے سفر حج کا سلسلہ بند ہوا اور لوگ ہوائی جہاز سے جانے لگے تو اس عمارت کی افادیت کم ہوگئی، تاہم مرکزی حج کمیٹی کا دفتر آج بھی اسی عمارت میں قائم ہے اور یہ مہاراشٹر کے عازمین حج کو سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ عازمین حج کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ملک کے مختلف صوبوںکی راجدھانیوں سے حج پروازیں شروع کی گئیں۔ اترپردیش ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں سے سب سے زیادہ عازمین حج سعودی عرب جاتے ہیں۔ غازی آباد کا حج ہاؤس مغربی یوپی کے عازمین حج کو سہولتیں پہنچانے کے لئے تعمیر کیاگیا تھا۔ 30مارچ 2005کو اس وقت کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو نے غازی آباد میں ہنڈن ندی کے کنارے حج ہاؤس کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا لیکن غلط ڈیزائن سازی کی وجہ سے اس کا کام شروع نہیںہوسکا۔ دوبارہ جب ڈیزائن بنا تو صوبے میں حکومت بدل گئی جس کی وجہ سے اس کی تعمیر پر خرچ ہونے والی رقم ریلیز نہیں ہوسکی۔ 2012 میں جب اترپردیش میں دوبارہ سماجوادی پارٹی کی سرکار قائم ہوئی تو اس کی تعمیر کا کام شروع ہوپایا۔ اس مرتبہ اس کام کے لئے دوبارہ کابینہ کی منظوری حاصل کی گئی۔ ہنگامی تعمیراتی کام کے بعد اس کی تعمیر 2016میں مکمل ہوگئی اور 5ستمبر 2016کو اس وقت کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے اس کا افتتاح بھی کردیا۔ اس حج ہاؤس میں ایک بار میں 1886عازمین حج کے ٹھہرنے کی گنجائش ہے۔ اس میں 47ڈورمیٹری ہیں اور 27وی آئی پی کمرے بھی ہیں۔ افتتاح کے بعد اعلیٰ حضرت حج ہاؤس کو صرف ایک ماہ استعمال کیاجاسکا کیونکہ نشیبی علاقے میں تعمیر کے سوال پر اس کے خلاف کیس دائر کردیاگیا۔ اس بنا پر 2017میں حج ہاؤس کو عازمین حج کے لئے نہیں کھولا جاسکا۔ حالانکہ این جی ٹی نے اسے بعد میں نشیبی علاقے سے باہر قرار دے دیا لیکن اس کے بعد آلودگی کے مسائل نے اس کا مستقبل مخدوش بنادیا۔ اس سلسلے میں 2016میں جو مقدمہ مخالفین نے دائر کیا تھا اس میں آبی وسائل کی وزارت کے علاوہ ندیوںکی ترقی اور ماحولیات وجنگلات کی مرکزی وزارت ہی کو نہیں بلکہ یوپی سرکار، غازی آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی ، نگر نگم ، آبپاشی محکمے ، آلودگی کنٹرول بورڈ اور حج کمیٹی کو بھی فریق بنایاگیا تھا۔
سماجوادی پارٹی سرکار کے ڈریم پروجیکٹ رہے اعلیٰ حضرت حج ہاؤس کو جب گزشتہ 20فروری کو آلووگی کنٹرول بورڈ اور مقامی انتظامیہ کی ٹیم نے این جی ٹی کے حکم پر سیل کیا تو وہاں سماجوادی پارٹی کا یک ادنیٰ کارکن بھی موجود نہیں تھا۔ این جی ٹی نے جس بنیاد پر اس میں تالا ڈالا ہے، وہ دراصل عمارت میں سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ (ایس ٹی پی) نہ ہونے سے متعلق ایک عرضی ہے۔ اس معاملے میں تحقیقات کے دوران پایاگیا کہ عمارت میں ایس ٹی پی نہیں بنایاگیا تھا، جس کی وجہ سے یہاں سے نکلنے والا پانی ہنڈن ندی کو آلودہ کرسکتا تھا۔ اسی کے پیش نظر گزشتہ 6فروری کو سیلنگ کے احکامات دیئے گئے تھے۔ یوپی کی سماجوادی پارٹی سرکار اس حج ہاؤس میں مناسب سیویج سسٹم تعمیر کرتی تو شاید نوبت یہاں تک نہیں آتی۔ یوں تو یہ معاملہ یوگی سرکار کے تعصب اور تنگ نظری کا بھی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اتنی اہم عمارت میں سیویج نظام کا نہ ہونا زبردست لاپروائی کا ثبوت ہے جس نے اس عمارت کی افادیت پر ہی سوالیہ نشان قائم کردیا ہے۔