واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا کہ اگر اس نے جوہری تعمیرات جاری رکھیں تو امریکہ سخت کارروائی سے گریز نہیں کرے گا۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران ایک مرتبہ پھر جوہری تنصیبات کی تعمیر کی کوشش کر رہا ہے اور اگر ایسا ہوا تو امریکہ فوری حملوں کی حمایت کرے گا۔ ان کے بقول، امریکہ نہیں چاہتا کہ طویل اور مہنگی فوجی کارروائیوں میں الجھا جائے، اس لیے ایران کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ معاہدے کی راہ اختیار کرے۔
صدر ٹرمپ نے فلوریڈا میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد گفتگو میں اسرائیل کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل خطے میں ایک اہم عنصر ہے اور امریکہ اس کی سلامتی کے لیے آخر تک کھڑا رہے گا۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر حماس غیر مسلح ہونے سے انکار کرتی ہے تو اسے اس کی قیمت چکانی ہوگی، تاہم غزہ سے اسرائیلی انخلا ایک الگ معاملہ ہے جس پر بات چیت جاری رہے گی۔ ان کے مطابق غزہ منصوبے کا دوسرا مرحلہ جلد شروع ہونے کی امید ہے اور علاقے کی تعمیر نو کا عمل بھی آگے بڑھے گا۔
امریکی صدر نے مقبوضہ مغربی کنارے کے حوالے سے طویل بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر اسرائیل اور ترکیے کے درمیان تصادم کا خطرہ موجود ہے، جس پر امریکہ گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ ایک سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ روسی صدر پوتن کی رہائش گاہ پر یوکرینی حملے کی خبر سن کر انہیں شدید تشویش ہوئی اور یوکرین کے معاملے میں امن کے لیے ابھی کئی پیچیدہ مسائل حل طلب ہیں۔
ادھر تہران میں ایران کی قیادت نے امریکی دھمکیوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کسی بھی جارحیت کا سخت اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ ایران کے سپریم لیڈر کے مشیر علی شمخانی نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران کی میزائل اور دفاعی صلاحیتیں کسی دباؤ کے تحت محدود نہیں کی جا سکتیں اور اس کے لیے کسی بیرونی اجازت کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایران اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔