عمر خالد اور شرجیل امام سمیت ان دس ملزمان کو دہلی ہائی کورٹ نے بھی ضمانت دینے سے انکار کردیا ج ہے جو گزشتہ پانچ سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ حالانکہ سبھی کو یہ امید تھی کہ ذیلی عدالتوں کے انکار کے بعد ہائی کورٹ اس معاملے میں منصفانہ رخ اختیار کرے گا، لیکن یہ امید پوری نہیں ہوئی اور ان ملزمان کی سیاہ رات مزید طویل ہوگئی۔یہ تمام لوگ گزشتہ پانچ سال سے بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ہیں۔ نہ تو ان کی سماعت ہورہی ہے اور نہ ہی انھیں بیل دی جارہی ہے۔یہاں سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ آپ کسی ملزم کو مقدمہ چلائے بغیر اتنے طویل عرصے تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیسے رکھ سکتے ہیں؟ یہ سوال ملک کے نظام انصاف سے پوچھا جانا چاہئے۔ ظاہر ہے انصاف کا نظام ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے، لیکن ان ملزمان کا المیہ یہ ہے کہ ٹھوس ثبوت موجود نہ ہونے کے باوجودپولیس انھیں جیل ہی میں رکھنا چاہتی ہے اور عدالتیں بھی پولیس کی اس خواہش کا بھرپور احترام کررہی ہیں جبکہ قانون کی نگاہ میں جیل ایک استثنیٰ ہے اور ضمانت ایک ضابطہ۔ان سبھی کو شمال مشرقی دہلی میں فروری 2020میں برپا ہوئے خوفناک فساد کی سازش رچنے کا ملزم گردانا گیا ہے۔اس کے برعکس دہلی پولیس ان اصل ملزمان کے خلاف کوئی ایف آئی آر تک درج نہیں کر رہی ہے جو شمال مشرقی دہلی کے خوفناک فساد کے موقع پر وہاں موجود تھے اور اعلیٰ پولیس افسران کی موجودگی میں کھلے عام فساد بھڑکانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ دیدہ دلیری تو دیکھئے کہ اس معاملے میں ٹرائل کورٹ کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنے کے حکم کو رد کرانے کے لیے پولیس اعلیٰ عدالت تک پہنچی ہے اور عدالت عالیہ پولیس کی مرضی کے مطابق فیصلہ صادر کررہی ہے۔عمرخالد اور ان کے ساتھیوں کی ضمانت عرضی پر ہائی کورٹ گزشتہ جولائی میں ہی فیصلہ لکھ لیا تھا، لیکن اسے اب صادر کیا گیا ہے۔شایدان ہی حالات کے بارے میں مشہورشاعر وسیم بریلوی نے کہا تھا
فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف
آپ کیا خاک عدالت میں صفائی دیں گے
واضح رہے کہ 2020میں شمال مشرقی دہلی میں برپا ہوئے فساد کا الزام ان نوجوانوں پر اس لیے ڈالا گیا ہے کہ یہ تمام لوگ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ یہ دراصل ان نوجوانوں کو سبق سکھانے کی ایک کوشش تھی تاکہ وہ مستقبل میں احتجاج کے اپنے بنیادی آئینی حق کا استعمال نہ کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان فسادات کو پولیس نے ایک بڑی ساز ش سے تعبیر کرتے ہوئے ان ملزمان کے خلاف غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون کا نفاذ کیا ہے جو عام طورپر دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔ جن ملزمان کی ضمانت عرضیاں خارج کی گئی ہیں، ان میں عمر خالد اور شرجیل امام کے علاوہ اطہرخاں، خالد سیفی، محمد سلیم خاں، شفاء الرحمن، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ اور شاداب احمد شامل ہیں۔ان کے خلاف یو اے پی اے جیسے خطرناک قانون کے تحت کارروائی کی گئی ہے جس میں ضمانت ملنا آسان نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ یہ ملزمان پچھلے پانچ سال سے جیل میں سڑرہے ہیں۔ اب تک ذیلی عدالتوں میں درجنوں بار ان کی ضمانت عرضیاں خارج ہوچکی ہیں۔ انھوں نے عدالت عالیہ کا دروازہ اس امید کے ساتھ کھٹکھٹایاتھا کہ وہاں ان کی بات سنی جائے گی، لیکن وہاں سے بھی انھیں مایوسی ہاتھ لگی ہے۔
جن لوگوں کی ضمانت عرضیاں خارج کی گئی ہیں، ان کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ یہ سبھی سی اے اے کے خلاف تحریک منظم کرنے میں پیش پیش تھے۔ دہلی اور ملک کے دوسرے حصوں میں انھوں نے اس احتجاج کو آگے بڑھایا تھا جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں جاری تھا اور جس کا محور دہلی کے اوکھلا علاقہ کا شاہین باغ تھا جہاں خواتین نے اس احتجاج کی کمان سنبھال رکھی تھی۔ یہ دراصل شہریت قانون میں کی گئی اس ترمیم کا ردعمل تھا جس کے تحت پڑوسی ملکوں سے آنے والے غیر مسلموں کو ہندوستانی شہریت دینے کا التزام کیا گیا تھا۔ شہریت قانون میں کی گئی یہ ترمیم اس اعتبار سے قطعی ناقابل قبول تھی کہ شہریت کو مذہب سے جوڑا گیا تھا جب کہ شہریت کی بنیاد مذہب ہرگز نہیں ہے۔یہ کھلم کھلا ایک فرقہ وارانہ قانونی ترمیم تھی جو ہندوستان کے سیکولر آئین سے متصادم تھی۔ اسی لیے اس کے خلاف سول سوسائٹی نے تحریک چلائی۔ یہ تحریک اتنی منظم اور کامیاب تھی کہ اسے دیکھ کر حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور وہ بے دست وپا ہوگئی۔ اس تحریک کو ناکام بنانے کا نسخہ فساد کو بنایا گیا۔ شمال مشرقی دہلی میں شاہین باغ جیسے دھرنے کو منظم کرنے والوں کو پہلے وارننگ دی گئی کہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ لیں ورنہ انھیں نتائج بھگتنے ہوں گے۔ یہ دھمکی دینے والا کوئی اور نہیں خود دہلی بی جے پی کا ایک لیڈر کپل مشرا تھا، جس نے ڈی سی پی اور دیگر پولیس افسران کی موجودگی میں دھرنے پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو اعلانیہ دھمکایا تھا۔ اسی دھمکی کے بعد دھرنے پر بیٹھے ہوئے لوگوں پر حملہ کیا گیا اور فساد کی بنیاد ڈال دی گئی۔ بھیانک فساد بھڑک اٹھا جس کے نتیجے میں کم ازکم 55بے گناہ افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، پولیس نے اس فساد کے سلسلے میں تقریباً دوہزار لوگوں کو ملزم بنایا اور لگ بھگ 750 ایف آئی آر درج کیں۔ جب عدالتوں میں ان مقدمات کی سماعت ہوئی تو بیشتر ملزمان کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا گیاکہ پولیس کی کارروائی نہایت لچر تھی اور الزامات کے حق میں ثبوت موجود نہیں تھے۔اس کیس میں مصطفی آبادعلاقہ کے کارپوریٹر طاہرحسین کو بھی ماخوذ کیا گیا جو ابھی تک جیل میں ہے۔ دہلی فساد کے دوملزمان طاہر حسین اور شفاء الرحمن کو مجلس اتحاد المسلمین نے بالترتیب مصطفی آباد اور اوکھلا سے گزشتہ اسمبلی الیکشن میں اپنا امیدوار بھی بنایا تھا اور یہ الیکشن لڑنے کے لیے باہر بھی آئے تھے، لیکن دونوں ہی الیکشن ہارکر دوبارہ جیل چلے گئے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ 20/فروری 2020کو جب شمال مشرقی دہلی میں آگ لگی تو سوشل میڈیا پر بی جے پی کے مقامی لیڈر کپل مشرا کا ایک ویڈیو گردش کررہا تھا جس میں وہ سی اے اے کے خلاف پرامن دھرنا دینے والوں کو دھمکی دے تھے کہ اگر پولیس نے ان کو نہیں ہٹایا تو ہم مداخلت کریں گے اور اس معاملے میں پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔ جس وقت وہ یہ کہہ رہے تھے تو اس وقت ان کی پشت پر علاقہ کے ڈی سی پی وید پرکاش سوریہ بھی موجود تھے۔ اس ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر نے پولیس کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرے۔ اس حکم کے بعد راتوں رات جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔ظاہر ہے یہ سب کچھ اوپر کے احکامات کے تحت ہورہا تھا جس میں اصل ملزمان کو بچانے اور بے قصوروں کو پھنسانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ پولیس بڑی مستعدی سے اس پر عمل کرتی رہی اور اس نے ٹرائل کورٹ کے اس حکم کے خلاف اونچی عدالت سے رجوع کیا جس میں کپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔کپل مشرا کے خلاف آج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے بلکہ انعام کے طورپر انھیں دہلی حکومت میں وزیرقانون وانصاف بنادیا گیا ہے۔ ظاہر ہے جب ایسے شخص کے کاندھوں پر قانون و انصاف کی ذمہ داری ہوگی تو قانون وانصاف کس سمت میں سفر کرے گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔چاند باغ کے رہنے والے محمد الیاس جن کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے خود کپل مشرا کو فساد بھڑکاتے ہوئے دیکھا تھا گزشتہ پانچ سال سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کررہے ہیں، مگر پولیس اس میں رخنہ اندازی کررہی ہے۔ اس سے پولیس کے اصل کردار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔