Jadid Khabar

آئین خطرے میں، خود مختار ادارے بی جے پی، آر ایس ایس کے نشانے پر: کھرگے

Thumb

نئی دہلی، 02 اگست (یو این آئی ) کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے         آئین  کو خطرے  میں بتاتے ہوئے  بی جے پی  اور آر ایس ایس پر شدید حملہ بولا  اور کہا کہ ان کا نظریہ آئین مخالف ہے اور اس لئے الیکشن کمیشن اور نائب صدر جیسے اداروں کی خود مختاری ختم کرکے پارلیمانی روایت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ 
مسٹر کھرگے نے یہاں وگیان بھون میں کانگریس لاء ڈپارٹمنٹ کی سالانہ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین صرف ایک قانونی دستاویز نہیں ہے بلکہ ہماری جمہوریت کی روح ہے جو ہر ہندوستانی کو انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارے کا حق دیتا ہے لیکن آج یہ آئین خطرے میں ہے۔ اقتدار میں بیٹھے لوگ اس کی بنیادی شکل بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔ بی جے پی آر ایس ایس کے بڑے لیڈر آئین کے دیباچے سے سوشلزم اور سیکولرازم الفاظ کو ہٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جب کہ یہ دونوں الفاظ ان کی پارٹی کے آئین میں موجود ہیں۔ یہ دوہرا معیار بی جے پی اور آر ایس ایس کے ہتھکنڈوں، چہرے اور کردار کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ، الیکشن کمیشن اور میڈیا کی جمہوریت کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، اس لیے ان کی آزادی ضروری ہے، لیکن جب کوئی جج کسی خاص مذہب کے لوگوں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرتا ہے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ ایسے وقت میں جب حکومت چیف جسٹس کو چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے عمل سے ہٹا دے اور میڈیا کو سرمایہ داروں کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے تو یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے۔
کانگریس صدر نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک عام ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم انتخابات میں 'مٹن، مغل اور منگل سوتر' جیسے الفاظ استعمال کرکے سماج کو تقسیم کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن اس پر خاموش ہے۔ اس دوران ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے لیے ایک بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے جس میں لاکھوں غریبوں، دلتوں، قبائلیوں اور اقلیتوں کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جا رہے ہیں۔ بہار میں تقریباً 65 لاکھ لوگوں کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے گئے ہیں۔ وہ پورے ملک میں ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین بنانے والوں نے سب کے ووٹ کو یکساں اہمیت دی ہے اور یہ پنڈت نہرو، ڈاکٹر امبیڈکر دستور ساز اسمبلی کے تمام اراکین اور کانگریس پارٹی کے تعاون سے ممکن ہوا ہے۔
مسٹر  کھرگے نے کہا کہ بی جے پی حکومت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے آج یہ آئینی حقوق خطرے میں ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس کی سنجیدگی کو سمجھ لیا ہے لیکن عدالت کے بار بار کہنے کے باوجود الیکشن کمیشن نے ووٹنگ  ووٹر لسٹ کے لیے آدھار کارڈ، ووٹر شناختی کارڈ، راشن کارڈ وغیرہ کو مجاز دستاویزات کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ملک کی ایک فیصد آبادی کے پاس 40 فیصد وسائل ہیں۔ اعلیٰ تعلیم عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ نجی کالجوں میں عام گریجویشن کی فیس 60 لاکھ روپے تک ہے۔ سرکاری اسکولوں کو بند کیا جا رہا ہے تاکہ پرائیویٹ ا سکولوں کو پروموٹ کیا جا سکے۔ تعلیم، صحت اور مساوی مواقع آج کمزور طبقات کے لیے ایک خواب بن چکے ہیں۔ اپوزیشن کی حکومتوں کو گرا کر اقلیتی حکومتیں بنانا، لیڈروں کے خلاف جھوٹے مقدمے درج کرنا، حکومت پر سوال اٹھانے والوں کو جیلوں میں ڈالنا، آر ٹی آئی کارکنوں کا قتل اور آر ٹی آئی قانون کو کمزور کرنا ایک عام سی بات ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ میں بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ حکومت نائب صدر کے ذریعے راجیہ سبھا میں ریکارڈ تعداد میں ممبران پارلیمنٹ کو معطل کر رہی تھی اور ممبران پارلیمنٹ کی آواز کو دبانے کی کارروائی کر رہی تھی۔ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی ان تمام سرگرمیوں سے خوش تھے۔ لیکن اس دوران نائب صدر کو اپنے عہدے کی اہمیت کا احساس ہوا اور انہیں اچانک محسوس ہوا کہ وہ ایک خود مختار ادارہ ہے۔ ان کا دور تاریخ میں درج کیا جائے گا اور مستقبل میں یاد رکھا جائے گا، اس لیے انھوں نے آزادانہ طور پر بولنا شروع کر دیا ۔ انھوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو اور جسٹس یشونت ورما کے مواخذے کی تحریک کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ مودی اور بی جے پی یہ برداشت نہیں کر سکے اور نائب صدر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا اور یہ اداروں پر قبضہ کی سب سے بڑی مثال ہے۔
کانگریس صدر نے کہا کہ کل ہی انہوں نے ڈپٹی چیئرمین کو خط لکھا تھا اور ایوان میں نیم فوجی دستے سی آئی ایس ایف کی موجودگی پر اعتراض اٹھایا تھا۔ آئین سازوں نے ایوان میں بیرونی مداخلت کو روکنے کے لیے پارلیمانی سیکیورٹی سروس قائم کی تھی۔ اس کے افسران کو پارلیمنٹ کے مطابق کام کرنے کی تربیت دی گئی تھی اور ان کا کنٹرول لوک سبھا اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کے ہاتھ میں تھا۔  سی آئی ایس ایف براہ راست وزیر داخلہ کو رپورٹ کرتا ہے۔ ان کی تعیناتی اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ کو دبانے اور دھمکانے کی کوشش ہے۔ ہم حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ کانگریس نے آئین بنایا اور اب اسے جمہوریت کے وقار کو بچانے کے لیے مسلسل کوششیں کرنی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اس پر ایک بڑی تحریک چلانے والی ہے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی اور ہمارے مخالفین اقتدار میں ہیں، وہاں ہمارے کارکنوں کے خلاف سچ بولنے پر جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ انہیں ڈرانے کے لیے ان کے خاندان والوں پر جھوٹے مقدمے درج کر کے ان کے حوصلے پست کیے جا رہے ہیں۔