Jadid Khabar

صدرٹرمپ: دوست،دوست نہ رہا

Thumb

جس تجارت کی دھمکی دے کر امریکی صدر ڈونائلڈٹرمپ نے ہندوپاک جنگ رکوانے کا دعویٰ کیا تھا، وہی تجارت اب ہندوستان کو خاصی مہنگی پڑرہی ہے۔نہ صرف یہ کہ ٹرمپ ہندوستان پر25فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کیا ہے بلکہ روس سے تیل اور ہتھیاروں کی خریداری پر بھی ہندوستان کو متنبہ کیاہے۔ اتنا ہی نہیں صدر ٹرمپ نے پاکستان میں تیل تلاش کرنے میں اس  کی مدد کا اعلان کرکے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایک دن ہندوستان پاکستان سے تیل خریدے گا۔ ٹرمپ نے اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ ہندوستانی معیشت کو ہی مردہ قرار دے دیا۔ یہ طمانچے ایک ایسے وقت مارے گئے ہیں جب اندرون ملک وزیراعظم نریندر مودی پر یہ الزامات لگ رہے ہیں کہ انھوں نے امریکہ کے سامنے خودسپردگی کردی ہے۔گزشتہ ہفتہ پارلیمنٹ میں ”آپریشن سندور‘‘ پر ہوئی بحث کے دوران حکومت کو ہند۔پاک جنگ کے دوران امریکی مداخلت کے تیکھے سوالوں سے گزرنا پڑا۔ وزیراعظم نریندرمودی نے کہا ہے کہ”ہندوپاک کے درمیان ہونے والی حالیہجنگ کسی تیسرے ملک کے دباؤ میں نہیں روکی گئی تھی بلکہ یہ کام دونوں ملکوں کی آپسی مفاہمت سے ہو اتھا۔“ وزیراعظم نریندر مودی  نے جنگ بندی کے معاملے میں کسی تیسرے ملک کی مداخلت سے تو انکار کیا، لیکن انھوں نے ایک بار بھی اپنے یارغار ٹرمپ کا نام نہیں لیا، جو بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ ہندوپاک کے درمیان گزشتہ مئی میں ہونے والا فوجی تصادم انھوں نے ہی رکوایا تھا۔فارسی کی ایک پرانی کہاوت ہے کہ”دوستوں کا حساب دل میں ہوتا ہے۔‘‘ہوسکتا ہے کہ صدرٹرمپ کے ساتھ وزیراعظم مودی کی جو خاص دوستی ہے، اس کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے انھوں نے ان کا نام نہ لیا ہو،لیکن اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کا اصرار یہی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی صدر ٹرمپ کو جھوٹا قرار دیں۔ انھوں نے کہا کہ”اگر مودی میں اندراگاندھی کیمقابلے نصف فیصد بھی حوصلہ  ہے تو انھیں ٹرمپ کو جھوٹا کہنا چاہئے۔“
آگے بڑھنے سے پہلے صدرٹرمپ سے مودی کے رشتوں پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ صورتحال کو سمجھنے میں مددملے۔ وزیراعظم نریندر مودی ٹرمپ کو اپنا لنگوٹیا یارقراردیتے رہے ہیں۔ امریکہ کے صدارتی الیکشن سے پہلے ہندوستان میں جگہ جگہ یرقانی بریگیڈ ٹرمپ کی کامیابی کے لییپرارتھنائیسبھائیں کررہی تھی۔ کئی جگہ ’ہون‘ بھی کئے گئے۔انھیں یوں لگتا تھا کہ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔لیکن صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف جو ’ابھیان‘ شروع کیا، اس کی سب سے زیادہ ضرب ہندوستانیوں پر پڑی۔امریکہ سے ایسے ہندوستانیوں کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہناکر ملک بدر کیا گیا۔ جب یہ لوگ احمد آباد ائیرپورٹ پر اترے تب بھی بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ایک ہندوستانی طالب علم کو پچھلے دنوں نیویارک ایئر پورٹ پر جس طرح زمین پر گراکر بیڑیوں میں باندھا گیا، اس سے ہر ہندوستانی نے خود کو بے عزت محسوس کیا۔ لیکن مودی جی نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس توہین آمیز سلوک پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ہاں وزارت خارجہ نے ضرور اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا۔اب صدرٹرمپ نے ہندوستان پر ٹیرف میں بے تحاشا اضافہ کردیا ہیجو  دنیا کے دیگر ملکوں پر کئے گئے اضافے سے بہت زیادہ ہے۔اس معاملے میں بھی انھوں نے پاکستان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔جب ٹرمپ نے گزشتہ مئی میں ہندوپاک کے درمیان جنگ رکوانے کا کریڈٹ لیا اور کھلم کھلا یہ کہا کہ انھوں نے ہی دونوں ملکوں پر دباؤ ڈال کر جنگ رکوائی ہے تو مودی جی کی طرف سے اس کی کوئی تردید نہیں کی گئی۔ انھوں نے اس معاملے میں پہلی بار گزشتہ منگل کو پارلیمنٹ میں زبان کھولی اور یہ کہا کہ”ان سے کسی بھی تیسرے ملک نے آپریشن سندور کو روکنے کے لیے نہیں کہا۔“
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کم وبیش ڈھائی درجن بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہندوپاک کے درمیان ہوئی حالیہ جنگ کو رکوانے کا کریڈٹ انھیں ملنا چاہئے، کیونکہ انھوں نے دونوں ملکوں کے ساتھ تجارت روکنے کی دھمکی کے عوض یہ جنگ رکوائی۔ہندوستا ن نے ٹرمپ کے اس دعوے کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جس کی وجہ سے بہت سے اندیشوں نے سراٹھایا۔ اپوزیشن مسلسل حکومت پر یہ الزام عائد کررہا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان نے پاکستان پر برتری حاصل کرلی تھی، وزیراعظم مودی نے بیرونی دباؤ میں جنگ روک کر مسلح افواج کے حوصلوں کو پست کیا۔اس معاملے میں آزاد ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوستانی فضائیہ کو پاکستان کے ساتھ جنگ میں کچھ ابتدائی نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔کہا جاتا ہے کہ ایک دونہیں پورے پانچ رفائل طیارے پڑوسی ملک کی فضائیہ نے مارگرائے۔ ظاہر ہے یہ ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔ اس کی تصدیق وزیردفاع راجناتھ سنگھ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ”امتحان میں اس بات کی اہمیت نہیں ہوتی کہ آپ کی کتنی پنسلیں ٹوٹیں بلکہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ آپ نے امتحان میں کیسی کامیابی حاصل کی۔“
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ’آپریشن سندور‘ کے دوران ہندوستان کی مسلح افواج نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار موجود دہشت کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ ان کی پیش قدمی جاری تھی کہ اچانک ان سے اپنا ہاتھ روک لینے کے لیے کہا گیا۔ ایسا کیوں ہوا، یہ ابھی تک ایک راز ہے۔وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں کہا کہ’’9/مئی رات امریکہ کے نائب صدر نے فون پر تین چار بار بات کرنے کی کوشش کی۔ میں مصروف تھا۔ پھر جب بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ پاکستان بہت بڑا حملہ کرنے والا ہے۔“اس پر میں نے امریکہ کے نائب صدر سے کہا کہ اگر پاکستان کا یہ ارادہ ہے تو اسے اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔اگرپاکستان حملہ کرے گا تو ہم اس کا منہ توڑ جواب دیں گے اور گولی کاجواب گولے سے دیں گے۔“
قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں اپنی طویل تقریر کے دوران ایک بار بھی صدر ٹرمپ کے اس دعوے پر بات نہیں کی جو اس وقت پوری دنیا میں بحث کا موضوع ہے۔ اگروہ اتنا ہی کہہ دیتے کہ انھوں نے صدر ٹرمپ سے کوئی بات ہی نہیں کی تو صورتحال کافی واضح ہوجاتی۔ اس سے قبل اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے پہلگام حملے پر حکومت کو گھیرتے ہوئے کئی تیکھے سوالات کئے۔انھوں نے امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے30/بار جنگ بندی کا دعویٰ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کو چیلنج کیا اور کہا کہ”اگر ان میں اندراگاندھی سے نصف ہمت بھی ہے تو وہ ٹرمپ کا نام لے کر کہیں کہ جنگ بندی کے بارے میں ان کا دعویٰ جھوٹا ہے۔“ انھوں نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ میں یہ بیان دیں کہ ٹرمپ نے جنگ بندی نہیں کرائی اور کوئی طیارہ نہیں گرا۔“راہل گاندھی نے انڈونیشیا میں دئیے گئے ہندوستان کے سی ڈی ایس انل چوہان کے بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ”سیاسی قیادت فوج کو پاکستان پر حملے کی کھلی چھوٹ دینے میں ناکام رہی۔“مودی سرکار نے فوج کے جوانوں کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ کر انھیں جنگ کے میدان میں بھیجا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے جنگ بندی کرانے کا بلند بانگ دعویٰ اور وزیراعظم کی طرف سے اس دعوے کی واضح تردید نہ کئے جانے سے صورتحال خاصی پیچیدہ ہوگئی ہے۔اب صدر ٹرمپ نے ہندوستان پر یکے بعد دیگر جارحانہ تجارتی پابندیاں عائد کرکے اور پاکستان کو سہولتیں دے کر ہندوستان کو کشمکش میں مبتلا کردیا ہے۔