Jadid Khabar

ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت

Thumb

ایران پر اسرائیل کے بلا اشتعال حملے نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو دھماکہ خیز بنادیا ہے۔ ایران نے جوابی کارروائی کے طورپر تل ابیب پر بیلسٹک میزائلوں کی بوچھار کردی ہے۔جمعہ کی صبح اسرائیل کے 200 جنگی طیاروں نے دوہزار کلومیٹر دور ایران کی کئی اہم فوجی اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ حملے اتنے سٹیک تھے کہ اسرائیل کا کوئی نشانہ خطا نہیں ہوا۔ اسرائیلی حملے میں 80 سے زیادہ ایرانی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں تو اسرائیل کے شہر تل ابیب میں خطرے کے سائرن بج رہے  ہیں۔اندیشہ اس بات کا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں کہیں یہ محاذ آرائی کسی بڑی جنگ میں تبدیل نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو پہلے سے ہی ابتر مشرق وسطیٰ کی صورتحال مزید ابتر ہوجائے گی۔
اسرائیل نے ان حملوں کو ’رائزنگ لائن‘ کا نام دیا ہے اور یہ کارروائی ایران کے ان مقامات پر کی ہے جو دفاعی اعتبار سے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ان میں ایران کا ایٹمی ٹھکانہ نتانز بھی شامل ہے۔ ان حملوں میں ایران کی اعلیٰ فوجی اور جوہری قیادت ختم کردی گئی ہے۔ یہ سب لوگ ایک زیرزمین مقام پر جنگی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے ان کا پتہ لگاکر ان  پر حملہ کیا اور اس حملے میں ایران کے سب سے سینئر ملٹری کمانڈر ہلاک ہوگئے۔ہلاک شدگان میں آئی آر جی ایس کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی، ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد بگھیری، جنرل غلام علی راشدشامل  ہیں۔ جن چھ جوہری سائنسدانوں کی اسرائیلی حملے میں موت ہوئی ہے، ان میں عبدالحمیدمنوچہر، احمد رضا ذولفقانی، امیر حسین فگیہی، مطلع بازادے، محمد مہدی تہرانچی اور ڈاکٹر فریدون عباسی شامل ہیں۔ اس طرح ایران نے پہلے ہی حملے میں ایرانی کی دفاعی قوت کو نشانہ بنایا۔یہ تمام لوگ ایک ہی مقام پر جمع تھے اور اسرائیل نے موقع غنیمت جان کر انھیں ایک ساتھ ہلاک کرنے میں کامیابی حاصل کی۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایران میں اسرائیل کے جاسوس چپہ چپہ پر سرگرم ہیں اور اس اعتبار سے اس کی دفاعی پوزیشن نازک ہے۔ اس سے قبل جب حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ کو تہران کے ایک محفوظ علاقہ میں گھات لگاکر ہلاک کیا گیا تھا تو اس وقت بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ ایران کی لمحہ بہ لمحہ خبریں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد تک کیسے پہنچتی ہیں۔اب یہ خطرہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر منڈلارہا ہے۔ 
 سبھی جانتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام اسرائیل اور امریکہ کے لیے سب سے بڑا دردسر ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ اس پروگرام کا اصل ہدف اسرائیل ہے اس لیے اسے وجود میں آنے سے پہلے ہی ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اورایران دو روایتی حریف ہیں اور ان کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل تہران میں اسرائیلکے ہاتھوں اسماعیل ہانیہ کی ظالمانہ ہلاکت نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو اپنی انتہاؤں تک پہنچادیا تھا اور اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے ایک دو سرے کے خلاف محدود پیمانے پر فوجی کارروائی بھی انجام دی تھی، جس کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ یہ سب ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ بظاہر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ کہا ہے کہ اسرائیلی حملے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے، لیکن یہ بیان محض سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل امریکہ کی مدد اور حمایت کے بغیر مشرق وسطیٰ میں کوئی کارروائی انجام نہیں دے سکتا۔ امریکہ نے یہ بیان اس لیے دیا ہے کہ ایران مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی ٹھکانوں اور افواج کو نشانہ بناسکتا ہے، اس لیے وہ اس حملے سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اسرائیل پرحملہ ہوا تو وہ اس کا دفاع کرے گا۔ یہی دراصل امریکہ کی وہ دوغلی پالیسی ہے جس نے مشرق وسطیٰ کو آتش فشاں کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔
امریکہ طویل عرصے سے ایران کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وہ اسے روکنے کے لیے ماضی میں ایران پر بھاری پابندیاں عائد کرچکا ہے اور آج بھی یہ عمل جاری ہے۔ ادھر امریکہ اور ایران کے درمیان گزشتہ کئی ہفتوں سے جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری تھے اور اس کا اگلا مرحلہ  اتوار کو قطر میں ہونے والا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کو نشانے پر لے کر جارحیت کا آغاز کردیا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران اپنا جوہری پروگرام ترک کردے۔ لیکن ایران کا کہنا ہے کہ خطے کی صورتحال کے سبب اس کا ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہونا اس کی دفاع کے لیے بے حد ضروری ہے۔لیکن اس معاملے میں امریکہ ایران کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکہ کی ان کوششوں کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ وہ کسی نہ کسی طرح اسرائیل کو محفوظ تر بنائے تاکہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی چودھراہٹ اور غنڈہ گردی قایم رکھ سکے۔امریکہ ہی نہیں دیگر مغربی طاقتیں بھی ایران کے جوہری پروگرام کی مخالف ہیں اور وہ اسے لپیٹنے کی طرف دار ہیں۔ ایرانی صدر مسعود پرشکیان نے گزشتہ روز کہا تھا کہ وہ نہ کسی دباؤ کے آگے جھکیں گے اور نہ ہی اپنی ایٹمی تحقیقات بند کریں گے۔ ایران کے صوبے ایلام میں انھوں نے ایک اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ”کسی بھی طاقت کو ہمیں سائنسی تحقیقات سے روکنے کا حق نہیں ہے۔ صنعت، طب اور زراعت وغیرہ کے لیے جوہری توانائی کے حصول کے لیے مغرب کی منظوری کا انتظار نہیں کریں گے۔ مغرب کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ ایرانی جوہری پروگرام رول بیک کرنے کا مطالبہ کرے۔“دوسری جانب انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے جوہری عدم پھیلاؤ کی خلاف ورزی پر ایران کے خلاف قرارداد منظورکرلی ہے۔ 
امریکہ اور اسرائیل کا خیال ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنانے میں خودکفیل ہوگیا تو وہ خطہ کی ایک بڑی طاقت بن جائے گا۔اسی لیے اسرائیل نے ایرانی جوہری مرکز کو نشانہ بنانے کے بعد کہا ہے کہ یہ کارروائی اس کے وجود پر بڑھتے ہوئے ایٹمی خطرے سے نپٹنے کی کارروائی ہے۔نتن یاہو نے ویڈیو پیغام میں یہ تسلیم کیا کہ”ایران کے سب سے بڑی جوہر لیب نتانز (اصفہان)اور بلیسٹک میزائلوں کے ذخیروں پر حملہ کیا گیا۔“ حملے کی زد میں آنے والے اہم شہروں میں تہران، اصفہان، تربزاور کرم شاہ شامل ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایران کے نیوکلیئر پلانٹ 80 میٹر یعنی26منزل کی گہرائی میں ہیں۔ ایران کی سیمنٹ کی تکنیک دنیا میں سب سے بہترین مانی جاتی ہے۔ اس لیے کہا جارہا ہے کہ اس کے نیوکلیئر پلانٹ کو نقصان نہیں پہنچا۔جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس پلانٹ سے فی الحال کوئی ریڈیئشن نہیں نکل رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اس حملے کے پیچھے اصل حکمت عملی یہ تھی کہ ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت کو ختم کرکے ایران کے کمان سسٹم کو تہس نہس کردیا جائے۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اسرائیل کا یہ حملہ صرف اس کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے ذریعہ وہ ایران کی دفاعی حملہ کی طاقت کو بھی کمزور کرنا چاہتا تھا۔
ماہرین جس بات سے فکر مندہیں وہ یہ ہے کہ ایران کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ قدرتی  گیس کے ذخائر ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کا چوتھا سب سے بڑا تیل ذخیرہ  بھی یہیں ہے۔ اس کے علاوہ تانبا، جنک اور لوہا بھی بڑی تعداد میں موجودہے۔ ماہرین کہتے ہیں اگر جنگ ہوئی تو اس کی سپلائی پر اثر ہوگا اور دنیا کی معیشت ڈانواں ڈول ہوسکتی ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ دریائے ہرمز کی وجہ سے ایران کو تیل کا ٹریفک کنٹرولر مانا جاتا ہے۔ یہاں سے روزانہ لاکھوں بیرل تیل گزرتا ہے۔ ایران چاہے تو  یہ سب بند کراسکتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایران براہ راست جنگ نہیں لڑتا وہ سائبر حملوں، ڈرون اسٹرائک اور پراکسی وار میں ماہر ہے۔ یہ وہ اسباب ہیں جنھوں نے دنیا کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔اس لیے اسرائیل، ایران جنگ کے بہت آگے تک جانے کے امکانات کم ہیں۔اسرائیل پہلے ہی غزہ میں پھنسا ہوا ہے اور وہ بیس ماہ کی طویل جارحیت کے باوجود اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکا ہے۔پوری دنیا اسرائیل پر تھو تھو کررہی ہے۔یوں بھی ایک ساتھ جنگ کے دومحاذ کھولنا پرلے درجہ کی حماقت ہے۔