Jadid Khabar

کیا سپریم کورٹ وقف قانون پر پابندی لگائے گا؟

Thumb

 وقف ترمیمی قانون پر بلند بانگ دعوے کرنے والی مودی سرکار سپریم کورٹ کے سامنے ہڑبڑاگئی ہے۔کئی ایسے سوالات تھے جن کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سالیسٹر جنرل نے عدالت سے ایک ہفتہ کی مہلت طلب کی اور سماعت کی اگلی تاریخ 5/مئی مقرر ہوئی۔ سپریم کورٹ نے سب سے تیکھے سوال وقف بورڈوں میں غیر مسلم ارکان کی تقرری پر ہی پوچھے اور کہا کہ کیا  حکومت ہندوؤں کے مذہبی ٹرسٹ اور بورڈوں میں مسلمانوں کو شامل کرے گی؟یہ ایسا سوال تھا جس کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے اوروہ اوقاف کی املاک کا تیا پانچہ کرنے کے لیے اس میں غیر متعلق لوگوں کو داخل کرنا چاہتی ہے۔عدالت کی بازپرس کے بعد حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وقف معاملہ میں اگلی سماعت تک سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں میں کوئی نئی تقرری نہیں کی جائے گی اور نہ ہی وقف کی جائیدادوں میں کوئی تبدیلی عمل میں آئے گی۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ کے کئی ایسے سوالات تھے جن کا کوئی جواب سالیسٹر جنرل کے پاس نہیں تھا۔ سالیسٹر جنرل عدالت کو یہ بھی نہیں بتاسکے کہ حکومت نے کس مقصد سے وقف ایکٹ میں ترامیم کی ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس بی جے پی نے اپنے 2019کے انتخابی منشور میں کہا تھا کہ وہ وقف جائیدادوں کو سرکاری قبضوں سے آزاد کرائے گی، وہ 2025میں یہ کہہ رہی ہے کہ وقف بورڈوں نے پورے ملک میں  سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کررکھے ہیں اور نیا قانون ان ہی قبضوں کو واگزار کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نیا قانون اوقاف کی کھربوں روپوں کی جائیداد کو ہڑپنے کے لیے وجود میں آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان ملک گیر سطح پر اس قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔
مودی سرکاریہ پروپیگنڈہ کررہی ہے کہ وہ وقف ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ مسلمانوں کی زبوں حالی دور کرنا چاہتی ہے۔وزیراعظم نے یہاں تک کہا کہ”وقف املاک کا اگر صحیح استعمال کیا گیا ہوتا تو آج مسلم نوجوان پنچر جوڑنے کاکام نہیں کررہے ہوتے۔ وقف کی املاک کو ان کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال نہیں کیا گیا، لہٰذا اب اس قانون کے ذریعہ پسماندہ مسلمانوں کو آگے بڑھانے کا کام کیا جائے گا۔“ ہمیں نہیں معلوم کہ ایک ایسا قانون جو وقف جائیدادوں پر سے مسلمانوں کا کنٹرول ختم کرنے  کے لیے بنایا گیا ہے،اس سے کس طرح مسلمانوں کی زبوں حالی دور ہوگی اور وہ بھی ایک ایسی سرکار کے ذریعہ جومسلمانوں کی فلاح وبہبود کے ہرکام میں روڑے اٹکاتی ہے اور جس نے اپنے جارحانہ اقدامات سے مسلمانوں کو دوئم درجہ کا شہری بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔حکمراں جماعت کے لوگ ہرروز مسلمانوں کے خلاف ایک نیا فتنہ کھڑا کرتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ مودی سرکار نے جس وقف ترمیمی قانون کو پاس کرانے کے لیے ہزار دلیلیں تراشی تھیں، جب اس کے قانونی جواز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے تو وہاں سرکاری وکیل کوئی مضبوط دلیل پیش نہیں کرسکے۔یعنی جو حکومت اس قانون کو پارلیمنٹ سے پاس کرانے پر بغلیں بجا رہی تھی، جب سپریم کورٹ نے اس پرسوال کھڑے کئے ہیں تو سرکاری وکیل بغلیں جھانکتے ہوئے نظر آئے۔جب سپریم کورٹ نے اس کے قانونی جواز پر یکے بعد دیگرے سوال کھڑے کئے تو قابل ترین سرکاری وکیلوں کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا اوروہ عدالت کو کوئی معقول جواب دینے کی بجائے آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آئے۔ ظاہر ہے عدالت کے پاس غیر معقول اور غیرمدلل باتوں کو سننے کا وقت نہیں ہوتا، اس لیے عدالت نے حکومت سے دو ٹوک الفاظ میں پوچھا کہ اس نے وقف ایکٹ میں غیرآئینی ترمیمات کیوں کی ہیں۔ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے سرکارکے انتہائی قابل وکیل ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے ہوئے نظر آئے۔ 
عدالت نے حکومت کو ایک ہفتہ کی مہلت دیتے ہوئے ایکٹ کے کلیدی نکات کے نفاذ پر عبوری روک لگادی ہے اور اس کی اگلی سماعت کے لیے پانچ مئی کی تاریخ مقرر کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یہ کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں دائر کی گئی پہلی پانچ اپیلوں پر ہی سماعت کرے گی۔ واضح رہے کہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف اب تک 120/ اپیلیں دائر کی گئی ہیں۔اس وقت پورے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ مسلمان ملک گیر سطح پر نئے وقف قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہیں اور وہ نئے وقف قانون کو وقف جائیدادوں کو ہڑپنے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم میں کہا ہے کہ تاحکم ثانی وقف بورڈو ں یا سینٹرل وقف کونسل میں کسی بھی قسم کی نامزدگیاں نہ کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی رجسٹرڈ وقف بائی یوزر جائیداد ڈی نوٹیفا ئی نہیں کی جائے۔
اس معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ملک میں بہت سی عبادت گاہیں تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں صدی کی تعمیرات ہیں ہیں، ان ترمیمات کے ذریعہ سرکار چاہتی ہے کہ اسے دستاویزات دکھائی جائیں، جو ممکن ہی نہیں ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے اس سلسلہ میں دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا۔ بنچ نے وقف بائی یوزر کے حوالے سے مرکزی حکومت سے کافی دقیق اور کرید کر سوال کیا اور کہا کہ ”مقننہ عدالت کے کسی بھی فیصلے یا حکم نامے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی۔ وہ قانون کی بنیاد کو ہٹا سکتی ہے لیکن کسی فیصلے کا اعلان نہیں کرسکتی یا اسے پابند نہیں قرار دے سکتی۔ مرکزی حکومت نے یہ مہمل دعویٰ کیا کہ ”بڑی تعداد میں مسلمان وقف بورڈ نہیں چاہتے، اگر کسی کو وقف کرنا ہے تو وہ اس کے لیے ٹرسٹ بنائے۔“ عدالت نے پوچھا کہ جب حکومت وقف بورڈوں میں غیر مسلم ممبران کو نامزد کرنے جارہی ہے تو کیا وہ ہندوؤں کے مذہبی ٹرسٹ اور بورڈوں میں مسلمانوں کو شامل کرے گی؟ عدالت نے اصرار کیا کہ سوائے ان ممبران کے جو سرکاری افسران کے کوٹے سے آتے ہیں، وقف بورڈ اور سینٹرل وقف کونسل کے ممبران مسلمان رہیں گے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی کلکٹر نئے ترمیمی قانون کے تحت کسی جائیداد کی جانچ کررہا ہے تو متعلقہ جائیداد کی وقف حیثیت متاثر نہیں ہوگی۔
سینئر وکیل کپل سبل جنھوں نے خود وقف ترمیمی قانون کے خلاف عرضی دائرکی ہے، عدالت کو بتایا کہ ”وقف ایک مذہبی معاملہ ہے اور اس کا تعلق اسلام کی روح سے ہے۔“ انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ”وقف ترمیمی قانون غیر آئینی اور مسلمانوں کے مذہبی امور میں سراسر مداخلت ہے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ جب دیگر طبقات کے مذہبی اداروں میں مسلمانوں کو شریک نہیں کیا جاتا تو پھر مسلم اوقاف میں غیر مسلم ممبران کی موجودگی پر اصرار کیوں ہے؟ اس کے ساتھ ہی انھوں نے سوال کھڑا کیا کہ ”کلکٹر کو جج کا اختیار کیوں دیا گیا اور وہ اپنے ہی مقدمہ کا فیصلہ کیسے کرے گا؟“ 
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں جو سلگتے ہوئے سوال کھڑے کئے ہیں ان کا حکومت کے پاس کوئی معقول اور مدلل جواب ہی نہیں تھا۔ ہوتا بھی کیوں؟ مودی سرکار نے وقف ترمیمی ایکٹ میں نئی ترمیمات صرف اور صرف مسلمانوں کو وقف جائیدادوں اور صدیوں پرانی عبادت گاہوں سے محروم کرنے کے لیے کی ہیں۔ یہ ترمیمات نہ صرف غیر آئینی ہیں بلکہ دستور کی دفعات سے متصادم ہیں اور بنیادی انسانی حقوق پر حملہ کرتی ہیں۔سپریم کورٹ کے رخ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے وقف ترمیمی قانون کے ذریعہ اوقاف پر قبضہ کرنے کی جو سازش تیار کی تھی، اسے فی الحال عدالت نے ناکام بنادیا ہے، لیکن جب تک عدالت اس معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ صادر نہیں کرتی اس وقت کوئی نتیجہ نکالنا قبل ازوقت ہوگا۔