گزشتہ نوسال سے لاپتہ جے این یو کے طالب علم نجیب احمد کو تلاش کرنے سے سی بی آئی نے ہاتھ کھڑے کردئیے ہیں۔ دہلی کی ایک عدالت نے ملک کی سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی کو اس کیس کو بند کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس طرح گزشتہ نو سال سے اپنے جوان بیٹے کی تلاش میں دردر بھٹک رہی نجیب احمد کی ماں فاطمہ نفیس کا غم پہلے سے زیادہ سوا ہوگیا ہے۔سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ دردوغم سے تڑپ رہی اس ماں کے غموں کا علاج کیوں ممکن نہیں ہوسکااور اس کے جوان بیٹے کی کھوج مکمل کیوں نہیں ہوسکی۔ بلند بانگ دعوے کرنے والی ملک کی سب سے بڑی اور طاقتور ایجنسی بھی نجیب کو تلاش کیوں نہیں کرسکی؟یہ سوال بہت دیرتک اور دور تک ہمارے قانونی اور تحقیقاتی نظام کا تعاقب کرے گا۔حالانکہ عدالت نے زیب داستاں کے لیے اتنا ضرور کہا ہے کہ ”سچ ہم سے دور ہوسکتا ہے، لیکن سچ کی تلاش مسلسل جاری رہنی چاہئے۔“مگر یہاں سوال یہ ہے کہ سچ کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود اگر اس سے روگردانی کی جائے اورسیاسی دباؤ میں سچائی کو نظرانداز کردیا جائے تو پھراس سچ کو کون تلاش کرے گا۔نجیب کی ماں کے سوالوں کو سن کر پروین شاکر کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہارجاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
دہلی کی راؤزایونیوعدالت نے گزشتہ پیر کو وہ عرضی منظور کرلی ہے جس میں نجیب کی پراسرار گمشدگی کی تحقیقات بند کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ یہ اپیل اس سی بی آئی کی طرف سے کی گئی تھی جو ملک کے بڑے سے بڑے کیس کو حل کرنے کی دعویدار ہے، لیکن وہ اپنی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجودنجیب احمد کی پراسرار گمشدگی کا معاملہ حل کرنے میں ناکام رہی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ نجیب کی گمشدگی کا شبہ آرایس ایس کی طلباء تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی) پر ظاہر کیا گیا تھا، کیونکہ نجیب اس تنظیم سے وابستہ طلباء کے ساتھ جھگڑے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں بھی ان کے علاج معالجہ کا کوئی ثبوت نہیں ملا جہاں وہ زخمی حالت میں پہنچے تھے۔ سفاک اور چالاک قاتلوں کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے جرم کا ہر ثبوت بڑی مہارت سے مٹا دیتے ہیں، لیکن تحقیقاتی ایجنسیاں اگر اپنے کام میں ایماندار ہوں تو وہ ہر چالاکی کی تہ تک پہنچ جاتی ہیں اور مجرموں کو بے نقاب کرکے کٹہرے میں کھڑا کردیتی ہیں، لیکن سی بی آئی جیسی ماہر ایجنسی یہ ذمہ داری کیوں نہیں پوری کرپائی، اس کا جواب بھی شاید ہی کبھی ملے۔ یہ ملک میں کوئی اکلوتا کیس نہیں ہے، جہاں عدالت نے کلوزر رپورٹ کو قبول کیا ہے، ایسے لاتعداد کیس ہیں جہاں مجبوروں،لاچاروں اور کمزوروں کا ساتھ نہ تو عدالتیں دے سکی ہیں اور نہ ہی ایجنسیوں نے اس میں اپنی طاقت کھپائی ہے۔ ظاہرہے جو ایجنسیاں اوپر سے احکامات لیتی ہوں اور جن پر حاکمان وقت کا پورا کنٹرول ہو، وہ اسی کام کو انجام تک پہنچائیں گی جس کی انھیں اجازت دی جائے گی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سی بی آئی نے نجیب کی گمشدگی کے دوسال بعد ہی اس کا سراغ لگانے سے ہاتھ کھڑے کردئیے تھے اور2018 ہی میں دہلی ہائی کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد عدالت میں کلوزر رپورٹ پیش کردی تھی۔نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس نے سی بی آئی کی اس رپورٹ کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے یہ دلیل دی تھی کہ یہ ایک ’سیاسی کیس‘ ہے اور سی بی آئی اپنے ’آقاؤں کے دباؤ‘ میں آگئی ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ جن کیسوں میں سنگھ پریوار سے جڑی ہوئی تنظیموں یا افراد کا نام آتا ہے وہاں تحقیقاتی ایجنسیوں اور پولیس کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں، لیکن یہ بات ان ہی معاملات پر صادق آتی ہے جہاں اپوزیشن یا سیاسی مخالفین کا معاملہ ہو۔ جس کیس میں حکمراں جماعت کے لوگ ملوث ہوں وہاں قانون کے پاؤں چھوٹے ہوجاتے ہیں اور وہ اتنا ہی چل پاتا ہے جتنی اس کو اجازت دی جاتی ہے۔
اترپردیش کے بدایوں ضلع کی رہنے والی نجیب کی ماں فاطمہ نفیس کا کہنا ہے کہ ’ان کا بیٹا 13/اکتوبر 2016کو اپنی چھٹیاں بتانے کے بعد جے این یو واپس آیا تھا۔15/16/اکتوبر کی درمیانی رات اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے۔“ بعد کو نجیب کی گمشدگی کے بعد فاطمہ نفیس نے جو ایف آئی آر درج کرائی اس کے مطابق نجیب کے روم میٹ قاسم نے انھیں بتایا کہ ایک جھگڑا ہوا تھا جس میں نجیب زخمی ہوگیا تھا۔ اگلے روز فاطمہ یوپی کے بلند شہر سے دہلی آنے کے لیے ایک بس میں سوار ہوئیں اور انھوں نے نجیب سے ہاسٹل میں ملنے کے لیے کہا، لیکن جب وہ ماہی مانڈوی ہاسٹل کے کمرہ نمبر106میں پہنچیں تو نجیب وہاں موجود نہیں تھا۔ اسی وقت سے نجیب کی تلاش شروع ہوگئی۔ نجیب کو تلاش کرنے کے لیے پوری طلباء برادری سرگرم ہوگئی اور سیاسی حلقوں میں زبردست احتجاج بھی ہوا۔ پہلے یہ کیس دہلی پولیس کے پاس آیااور اس کے بعد سی بی آئی نے اس کی تحقیقات اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ نجیب کی ماں بھی اپنے جوان بیٹے کی تصویر کے ساتھ اس کی تلاش میں دردر بھٹکتی رہیں اور انھوں نے احتجاجی طلباء کے ساتھ مسلسل مظاہرے کئے۔ انھوں نے سی بی آئی کی تفتیش پر شروع سے عدم اطمینان ظاہرکیا۔
اب جبکہ دہلی کی ایک عدالت نے نجیب کی تلاش میں ناکامی کا اعتراف کرنے کے بعد سی بی آئی سے اس کیس کو بند کرنے کی بات کہی ہے تو نجیب کی ماں کا وہ درد چھلک آیا ہے جسے وہ پچھلے نوسال سے اپنے وجود پر جھیل رہی ہیں۔ نجیب کی ماں نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ پر عدالتی مہر لگنے کے بعد گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقاتی ایجنسیوں پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ”اگر دہلی پولیس اور سی بی آئی شروع سے ہی سنجیدگی کے ساتھ کارروائی کرتی تو آج یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ”میرے نجیب کو غائب ہوئے آج نوسال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا،اس معاملے میں دہلی پولیس اور سی بی آئی نے شروع ہی سے جس لاپروائی کا مظاہرہ کیا اس کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔ فاطمہ نفیس نے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے وابستہ ان طلباء پر بھی تنقید کی کہ جنھوں نے ان کے بیٹے کو تشدد کا نشانہ بنایا اورجن پراسے غائب کرنے کا بھی الزام ہے۔ نجیب کی ماں نے سوال کیا کہ”آخر جن طلباء پر شبہ تھا ان کی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی اور ان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟“
15/اکتوبر 2016کو جب نجیب اپنے ہاسٹل سے غائب ہوا تھا تو اس کی عمر 27برس تھی اوروہ اس وقت جے این یو کے اسکول برائے بایو ٹکنالوجی میں ایم ایس سی کا طالب علم تھا۔ اس کی گمشدگی کے بعد طلباء برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے زبردست احتجاج کیا تھا۔ نہ صرف جے این یو کیمپس میں اس پرطویل اور مسلسل احتجاج ہوا بلکہ جنتر منتر اور ملک کے کئی حصوں میں طلباء برادری نے نجیب کو تلاش کرنے کا مطالبہ کیا،مگر تحقیقاتی ایجنسیاں اس معاملہ میں ایک طے شدہ ایجنڈے پر کام کرتی رہیں۔ نہ صرف نجیب کو تلاش کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ اسے بدنام کرنے اور اس کے خلاف بے ہودہ پروپیگنڈہ کرنے کے فسطائی طریقے ایجادکئے گئے تاکہ اسے ہی مجرم قراردیا جاسکے۔بعد کو دہلی ہائی کورٹ کے حکم پر سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارموں سے نجیب کے خلاف پھیلائی گئی افواہوں کو ہٹایا گیا۔نجیب کی ماں نے سوال کیا کہ ”آخر ملک کی سب سے بڑی تفتیشی ایجنسی اور عدالتی نظام آج تک یہ پتہ کیوں نہیں لگاسکا کہ آخر میرا بیٹا کہاں ہے۔“ فاطمہ نفیس نے بہرحال جے این یو، جامعہ، اے ایم یو اور دیگر تعلیمی اداروں کے ان طلباء کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے برسوں احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے کر ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ نجیب کے لیے سڑکوں پر لاٹھیاں کھائیں، آواز بلند کی اور یہی وہ جدوجہدانھیں آج بھی حوصلہ دیتی ہے۔