سپریم کورٹ میں پیر کے روز ایک وکیل نے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) بی آر گووئی پر جوتا سے حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ وکیل نے عدالت میں بحث کے دوران ججوں کے اسٹیج کے قریب جا کر جوتا نکال کر پھینکنے کی کوشش کی، لیکن وقت رہتے سیکورٹی اہلکاروں نے اسے روک لیا۔ وکیل کا نام راکیش کشور بتایا جا رہا ہے۔
موصولہ اطلاع کے مطابق سیکورٹی اہلکاروں نے جوتا پھینکنے کی کوشش کرنے والے وکیل کو فوری طور پر عدالت سے باہر نکال دیا۔ اس دوران وہ چیختا رہا ’’سناتن کی بے حرمتی برداشت نہیں کریں گے‘‘۔ جب یہ معاملہ پیش آیا تو چیف جسٹس گوئی نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا اور خود کو بالکل پُرسکون رکھا۔ انھوں نے اس واقعہ کے بعد بحث میں شامل وکلا سے کہا کہ ’’ہم اس سے متاثر نہیں ہوتے، آپ اپنی دلیلیں جاری رکھیں۔‘‘
تازہ ترین خبروں میں بتایا گیا ہے کہ جوتا پھینکنے کی کوشش کرنے والے وکیل راکیش کشور کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اس سے پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے تاکہ حقیقت حال کا پتہ لگایا جا سکے۔ نئی دہلی ضلع کے ڈی سی پی اور سپریم کورٹ کے ڈی سی پی بھی موقع پر موجود بتائے جا رہے ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ کھجوراہو میں بھگوان وشنو کی ایک ٹوٹی ہوئی مورتی سے متعلق پرانے مقدمہ میں چیف جسٹس گوئی کے ایک تبصرہ پر ردِعمل کی شکل میں پیش آیا ہوگا۔ ان کے بیان پر کئی ہندو تنظیموں نے اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔ تاہم سیکورٹی اہلکاروں نے اس واقعہ کی نوعیت کو کم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک شخص عدالت میں شور مچا رہا تھا، اسے باہر نکال دیا گیا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ کھجوراہو میں بھگوان وشنو کی سر کٹی ہوئی مورتی کو دوبارہ نصب کرنے کی ایک عرضداشت پر چیف جسٹس بی آر گوئی نے کہا تھا کہ ’’جاؤ اور اپنے دیوتا سے ہی کہو کہ کچھ کریں۔ تم کہتے ہو کہ تم بھگوان وشنو کے کٹر بھکت ہو، تو جاؤ اور ابھی دعا کرو۔ یہ ایک آثارِ قدیمہ کی جگہ ہے، اور اس میں کوئی بھی کام کرنے کے لیے اے ایس آئی کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اس لیے معذرت!‘‘
چیف جسٹس کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے خلاف سخت مہم شروع ہو گئی تھی اور کئی لوگوں نے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ بعد میں چیف جسٹس گوئی نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی بات کو سوشل میڈیا پر غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’کسی نے مجھے بتایا کہ میرے کیے گئے تبصرے کو سوشل میڈیا پر مخصوص انداز میں دکھایا جا رہا ہے… میں تمام مذاہب کا احترام کرتا ہوں۔‘‘