یہ کہانی ایک ایسے آئینی ادارے کے زوال کی ہے جس نے طویل عرصے تک ملک کے جمہوری نظام کو بچائے رکھنے میں نمایاں کردار اداکیا۔ جی ہاں ہم بات کررہے ہیں الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جس کی کارکردگی پر آج ڈھیروں سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ یہ وہی ادارہہے جس کی سربراہی ایک زمانے میں ٹی این سیشن جیسا الیکشن کمشنر کیا کرتا تھا اورجس کا نام سن کر بدعنوان سیاست داں کانپ اٹھتے تھے۔یہی الیکشن کمیشن جس ماضی میں صاف وشفاف اور ایماندارانہ انتخابات کرانے کی ایک سنہری تاریخ رقم کی وہ آج سیکڑوں سوالوں کے گھیرے میں ہے اور اس کے سربراہوں پر ایسے سنگین الزامات لگ رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں لگے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے اور الزامات کی جانچ کرانے کی بجائے سوال اٹھانے والوں کی معتبریت کو ہی چیلنج کررہا ہے۔
یوں تو اپوزیشن کئی انتخابات سے یہ سوال اٹھارہا ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہورہی ہے اور اس کام میں حکمراں جماعت کے ساتھ الیکشن کمیشن برابر کا شریک ہے۔لیکن اب تک اس کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا۔گزشتہ جمعرات کو اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے پارٹی آفس میں کھچا کھچ بھری ہوئی ایک پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن کی بدعنوانیوں کا ایسا کچا چٹھاکھولا کہ سب دنگ رہ گئے۔ لوگوں کو اس بات پر حیرت تھی کہ ایک آئینی ادارے کی ناک کے نیچے اس درجہ کی بدعنوانیاں بھی فروغ پاسکتی ہیں اور عوامی مینڈیٹ کو یوں چوری بھی کیا جاسکتا ہے۔راہل نے پریس کانفرنس کے اگلے روزبنگلور میں ”ووٹ ادھیکار ریلی“ میں اپنے الزامات کو دوہراتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار چوری کے ووٹوں سے وجود میں آئی ہے۔
سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ وہ الزامات جو پہلے بدعنوان سیاست دانوں اور بوتھ لوٹنے والوں پر لگتے تھے وہی اب الیکشن کمیشن کے سربراہوں پر بھی لگ رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے میڈیا کے سامنے جو ٹھوس شواہد پیش کئے ہیں ان کی موجودگی میں الیکشن کمیشن کو چاہئے تھا کہ وہ فوراً اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دیتا اور راہل گاندھی کی اس محنت کاشکریہ ادا کرتا جو ان کی ٹیم نے گزشتہ چھ ماہ کی دوڑ دھوپ کے بعد ووٹ چوری کے دستاویزی ثبوت مہیا کرنے میں کی ہے، لیکن اس کے برعکس الیکشن کمیشن نے راہل گاندھی کے انکشافات پر ہی سوال کھڑے کردئیے ہیں اور ان سے حلف نامہ داخل کرکے ان ثبوتوں کی تصدیق کرنے کے لیے کہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی ہٹ دھرمی دیکھ کریوں لگتا ہے کہ وہ بالکل دودھ کا دھلا ہوا ہے اور اس کے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن مسلسل ہورہی دھاندلی اور ووٹ چوری کے سلسلہ میں جو رویہ اختیار کررہا ہے اسے دیکھ کر ہمیں منیر نیازی کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
آپ کو یادہوگا کہ چند ماہ پیشتر راہل گاندھی نے ایک مضمون لکھ کر مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہوئی ووٹوں کی چوری کا پردہ فاش کیا تھا۔ ان کا یہ مضمون اردو سمیت ملک کی پندرہ زبانوں کے اخبارات میں ادارتی صفحے پر شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد حکمراں جماعت بی جے پی اور الیکشن کمیشن نے ایک ہی سر میں یہ کہا تھا کہ راہل ہوامیں تیراندازی کررہے ہیں اور ان کے پاس اپنے دعوؤں کے حق میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے بعدراہل نے ثبوت جٹانے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی جس نے چھ ماہ کی محنت کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ثبوت یکجا ہونے کے بعد انھوں نے گزشتہ ہفتہ یہ کہا تھا کہ ان کے پاس ووٹوں کی چوری سے متعلق ایک ایٹم بم ہے جسے وہ جلدہی پھوڑیں گے۔ واقعی انھوں نے ووٹ چوری سے متعلق جو انکشافات دستاویزی ثبوتوں سے ساتھ پیش کئے ہیں وہ کسی ایٹم بم سے کم نہیں ہیں۔
یوں تو راہل نے کئی ثبوت پیش کئے، لیکن ان میں کرناٹک کی بنگلور سینٹرل سیٹ کا معاملہ سب سے اہم تھا جہاں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ چوری کئے گئے۔انھوں نے کہا کہ کرناٹک کے مہادیو پورہ علاقہ میں رائے دہندگان کی فہرست میں بڑے پیمانے پر گڑبڑکی گئی اور ووٹوں کی اس چوری کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ملا۔ انھوں نے کہا کہ بنگلور سینٹرل لوک سبھا سیٹ پر کانگریس کی شکست اسی گڑبڑی کی وجہ سے ہوئی۔ راہل نے بتایا کہ کانگریس کے اندرونی سروے میں کرناٹک کی سولہ لوک سبھا سیٹوں پر کامیابی کے اشارے ملے تھے، لیکن پارٹی صرف 9 سیٹیں حاصل کرپائی۔ سات سیٹوں پر غیر متوقع شکست میں سے بنگلور سینٹرل کی خاص تحقیقات کی گئی اور اس میں مہادیوا اسمبلی حلقہ کو نشان زد کیا گیا، جہاں سب سے زیادہ گڑبڑی پائی گئی۔راہل گاندھی کی طرف سے پیش کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق بنگلور سینٹرل سیٹ سے کانگریس امیدوارکو چھ لاکھ 26ہزار سے زائد ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کو چھ لاکھ 58 ہزار سے زائد۔ یعنی کانگریس تقریباً 32ہزار ووٹوں سے پیچھے رہی، لیکن اسی لوک سبھا سیٹ کے مہادیوا اسمبلی حلقہ میں کانگریس کو محض ایک لاکھ پندرہ ہزار ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کو دولاکھ 29/ہزار ووٹ یعنی بی جے پی کو ایک لاکھ14/ہزار ووٹوں کی سبقت ملی۔ راہل نے کہا کہ اگر مہادیوا اسمبلی حلقہ کے ووٹ چوری کے اعداد وشمار کو نکال دیں تو کانگریس یہ سیٹ82/ہزار ووٹوں سے جیت جاتی۔راہل نے الزام لگایا مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں بھی اسی قسم کی جعل سازی ہوئی تھی۔ وہاں لوک سبھا اور اسمبلی الیکشن کے درمیان پانچ مہینے میں ایک کروڑ ووٹر جوڑ دئیے گئے جبکہ اس سے قبل پانچ سال میں اتنے ووٹوں کا اضافہ نہیں ہوا۔
راہل گاندھی نے بتایا کہ سب سے چونکانے والا انکشاف یہ تھا کہ کئی معاملوں میں ایک کمرے کے مکان میں 80 /ووٹر درج پائے گئے۔ راہل گاندھی نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں 80/لوگ رہتے ہوں؟ یہ جعل سازی نہیں تو اور کیا ہے؟ انھوں نے آگے کہا کہ ایک ہی پتے پر پچاس پچاس ووٹر وں کا اندراج ہے۔راہل نے کہا کہ ہندوستانی دستور کی بنیاد اس اصول پر قائم ہے کہ ایک شخص کو ایک ووٹ کا حق ہے، لیکن آج یہ بنیادی حق کتنا محفوظ ہے یہی سب سے بڑا سوال ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ جب ای وی ایم نہیں تھی تو پورے ملک میں ایک ہی دن ووٹنگ ہوتی تھی، لیکن اب کئی مرحلوں میں ہوتی ہے پھر بھی بی جے پی کے خلاف اقتدار مخالف ماحول نظر نہیں آتا۔راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن سے جواب مانگا اور کہا کہ اگر اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی ووٹ چوری کی تحقیقات نہیں ہوتی تو تو جمہوریت کی بنیاد پر ہی سوال اٹھیں گے۔ واضح رہے کہ یہ راہل گاندھی نے یہ ہوش ربا انکشافات ایسے وقت میں کئے ہیں جب اپوزیشن الیکشن کمیشن پر مسلسل ای وی ایم اور ووٹر لسٹ کی شفافیت پر سوال اٹھا رہا ہے اور اس کے محور میں بہار ہے جہاں آئندہ نومبر میں اسمبلی چناؤ ہونے والے ہیں۔ بہار میں تقریباً65 لاکھ ووٹروں کے نام حذف کرنے کی کارروائی چل رہی ہے جس میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات ہیں۔