Jadid Khabar

ہندستان کا غزہ جنگ بندی کی تجویز پر ووٹنگ سے علیحدہ رہنا روایت سے غداری : کانگریس

Thumb

نئی دہلی، 14 جون (یو این آئی) کانگریس نے اقوام متحدہ میں فلسطین جنگ بندی کی تجویز پر ووٹنگ سے علیحدہ رہنے کے ہندوستان کے فیصلے کو امن اور انصاف کی روایت کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے اصولوں کے ساتھ غداری قرار دیا ہے اور کہا کہ حکومت کو ان وجوہات کی وضاحت کرنی چاہئے جن کی وجہ سے اس نے  ہندوستان کے عدم تشدد، امن و انصاف کے موقف کے خلاف قدم اٹھایا ہے۔
کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے، پارٹی کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال، پرینکا گاندھی واڈرا اور کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پون کھیڑا نے ہفتہ کو یہاں کہا کہ ہندوستان کا موقف غیر جانبداری  اور اخلاقی سفارتکاری کی ہماری طویل روایت کے خلاف ہے۔ کانگریس قائدین نے کہا کہ ہندوستان کو ایک بار پھر انصاف کے لئے آواز اٹھاتے ہوئے سچائی اور عدم تشدد کے لئے بے خوف ہوکر کھڑا ہونا ہو گا۔
کانگریس رہنماؤں نے یہ رد عمل 12 جون کو اقوام متحدہ میں غزہ جنگ بندی پر ووٹنگ سے علیحدہ رہنے کے ہندوستان کے فیصلے پر دیا ہے۔انھوں نے اس فیصلے کو حکومت کی اخلاقی سفارتی ناکامی، خارجہ پالیسی میں غلطی اور اصولوں کے منافی قدم قرار دیا ۔
مسٹر کھڑگے نے کہا، "اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں گڑبڑی ہورہی ہے۔ شاید، وزیر اعظم مودی کو اب اپنے وزیر خارجہ کی بار بار کی غلطیوں پر غور کرنا چاہیے اور کچھ احتساب کرنا چاہیے۔ غزہ میں جنگ بندی پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے حق میں 149 ممالک نے ووٹ دیا۔ ہندوستان ان 19 ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے اکتوبر میں اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔" 8اکتوبر 2023 کو وسیع اور خوفناک انسانی بحران کے وقت، کانگریس نے اسرائیل کے لوگوں پر حماس کے وحشیانہ حملوں کی مذمت کی، اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا میں جنگ بندی، امن اور مذاکرات کی وکالت کا اپنا موقف ہندستان نے ترک کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا، "ہندوستان کا یہ موقف غیر جانبداری اور اخلاقی سفارت کاری کی ہماری طویل روایت کا حصہ رہا ہے اور اس موقف کی وجہ سے ہم نے ہمیشہ بین الاقوامی تنازعات میں انصاف اور امن کی حمایت کی ہے۔ کانگریس نے 19 اکتوبر 2023 کو فوری جنگ بندی اور غزہ کے پریشان اور بے گھر لوگوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کی بھی اپیل کی تھی۔ جب علاقہ ، تشدد، انسانی تباہی اور بڑھتی ہوئی عدم استحکام کا سامنا کررہا ہے تہ ہندستان خاموش یا غیرفعال ہوکر کھڑا نہیں رہ سکتا۔"
مسٹر وینوگوپال نے کہا کہ ہندوستان ہمیشہ امن، انصاف اور انسانی وقار کے حق میں کھڑا رہا ہے لیکن آج ہندوستان جنوبی ایشیا، برکس اور ایس سی او کا واحد ملک ہے جس نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی قرارداد پر اپنا موقف نہیں رکھا۔ اس تنازعے میں 60,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ ہزاروں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ بین الاقوامی امداد روک دی گئی ہے جس سے انسانی تباہی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندستان بتائے کہ کیا اس نے جنگ، نسل کشی اور انصاف کے خلاف اپنا اصولی موقف ترک کر دیا ہے۔وزارت خارجہ کو بتانا چاہئے کہ پچھلے چھ مہینوں میں کیا تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ سے ہندوستان جنگ بندی کی حمایت سے دور رہنے لگا  ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ حکومت نہرو کی وراثت کا بہت کم احترام کرتی ہے، لیکن کیا سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کا فلسطین پر اصولی موقف بھی ترک کر دیا گیا ہے؟ ہندوستان طویل عرصے سے مغربی ایشیا میں جنگ بندی، امن اور بات چیت کے لیے ایک اصولی آواز رہا ہے۔ مسز واڈرا نے اسے مایوس کن فیصلہ قرار دیا اور کہا، ''حکومت نے غزہ میں شہریوں کے تحفظ اور قانونی اور انسانی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد پر غور نہ کرنے کا فیصلہ کرکے ہماری نوآبادیاتی مخالف میراث سے ایک المناک الٹ پھیر کیا ہے۔
مسٹر کھیڑا نے حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ 12 جون کو اقوام متحدہ میں غزہ جنگ بندی پر ووٹنگ سے ہندوستان کا علیحدہ رپنا ایک چونکا دینے والا عمل تھا۔یہ ہندوستان کی نوآبادیاتی مخالف میراث اور آزادی کی اقدار سے غداری ہے۔ ہندوستان فلسطین کے لیے مضبوطی سے کھڑا رہا، 1974 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو تسلیم کرنے والا پہلا غیر عرب ملک بن گیا، 1983 میں نئی ​​دہلی میں یاسر عرفات کو ساتویں ناوابستہ تحریک سربراہی اجلاس میں مدعو کیا اور پھر 1988 میں فلسطین کی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا لیکن آج وہ شاندار وراثت ملبے میں تبدیل ہوچکی ہے۔
 انہوں نے کہا،  ہندستان آج تل ابیب کے سامنے جھک گیا ہےاور ان اصولوں کو ترک کر دیا ہے جن کی بنیاد پر ہم نے کبھی ایک ایسا ملک بنایا تھا جو دنیا کی اخلاقی اقدار کی رہنمائی کرتا تھا۔ دسمبر 2024 میں غزہ میں مستقل جنگ بندی کے حق میں ووٹ دینے سے بھی زیادہ  بزدلانہ پلٹی  اس ووٹینگ سے دور رہنا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ مودی سرکار  اصولوں   کے دفاع  کے لئے کھڑی نہیں ہوتی ہے ۔"  انہوں نے کہا کہ عالمی قیادت خاموشی اور چاپلوسی سے نہیں بنتی۔ اگر ہم اپنی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اہم ترین وقت پر بولنے کی جرات کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔