Jadid Khabar

”پس پردہ گجرات“ کا اجرا

Thumb

یہاں انڈین ویمن پریس کلب میں دانشوروں اور پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کی بڑی تعداد کی موجودگی میں گجرات کے سابق ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل پولیس آر۔بی۔سریکمار (آئی پی ایس ریٹائرڈ)کی انگریزی کتاب کا اردو دترجمہ ”پس پردہ گجرات“ اور ہندی ترجمہ ”گجرات پردے کے پیچھے“ کا اجراءعمل میں آیا۔ اجراءمیں خود مصنف ، معروف صحافی معصوم مرادآبادی اور حمرہ قریشی، حقوق انسانی کے علمبرداراویس سلطان خان اور ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے حصہ لیا۔

معصوم مرادآبادی نے کتاب اور مصنف کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ گجرات فسادات پر یہ سب سے اہم اور دستاویزی کتاب ہے کیونکہ اس کے مصنف اس وقت گجرات میں محکمہ¿ خفیہ کے اعلیٰ ترین افسر تھے اور بروقت انہوں نے گجرات سرکار کو تحریری طورپر ان سب باتوں کے بارے میں مطلع کیا تھا اور پھر ناناوتی کمیشن کو لکھ کر کئی میمورنڈم دئے ، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فسادات منصوبہ بند تھے۔ افسوس ہے کہ اصل انگریزی کتاب اگرچہ کچھ عرصہ قبل چھپی لیکن اس کو یوں دبا دیا گیا کہ کسی کو خبر نہیں ہوئی ۔اب امیدہے کہ اردو اور ہندی ایڈیشنوں کے ذریعے یہ بات دوردور تک پہنچے گی۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے بحیثیت ناشر کہا کہ فاروس میڈیا کے تحت ہم نے ۲۲ سال قبل نشرواشاعت کا جو پودا لگایا تھا وہ اب تناور درخت بن گیا ہے۔ اس دوران ہم نے سو سے زیادہ معیاری کتابیں انگریزی، اردو، ہندی، گجراتی اور عربی میں شائع کی ہیں۔ ہم نے خاص طور پر وقت کے سلگتے ہوئے موضوعات پر کافی کتابیں مختلف زبانوں میں شائع کی ہیں تاکہ ان کا صحیح پس منظر لوگوں کے سامنے آسکے۔دہشت گردی کے افسانے کے بارے میں ہم نے متعددمعیاری کتابیں شائع کی ہیں جن میں ”ہو کلڈ کرکرے؟“ (کرکرے کے قاتل کون؟) جیسی معرکة الآراءکتاب شامل ہے جس نے دہشت گردی کے افسانے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ یہ کتاب آٹھ زبانوں میں دستیاب ہے جو ایک غیر معمولی بات ہے۔ موجودہ کتاب کے بارے میں ڈاکٹر ظفرالاسلام نے تفصیل سے بات کی اور بتایا کہ جلد ہی اس کا نیا انگریزی ایڈیشن بھی فاروس میڈیا شائع کرنے والا ہے تاکہ ملک کے اندر اور باہر یہ دستاویزی کتاب پہنچ سکے۔
معروف تجزیہ نگار اور کالمسٹ حمرا قریشی نے کہا کہ وہ عرصہ قبل اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن پڑھ چکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کتاب سے واضح ہوتا ہے کہ دنگے خود سے نہیں ہوتے ہیں بلکہ کرائے جاتے ہیں۔ مصنف کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ ایک بہت بہادرآدمی ہیں جن کو حق بات کہنے پر پریشان کیا گیا جبکہ سارے دلائل ہونے کے باوجود ونجارا جیسا شخص ا ٓج ایک آزاد انسان ہے۔
مصنف سری کمار نے کتاب کے بارے میں بتایا کہ یہ کتاب قانون کی حکمرانی کے لئے میری ساتویں کوشش ہے۔انہوں نے بتایا کہ مودی نے افسران سے ۷۲ فروری کی شام کو کہاتھا کہ ”ہندوو¿ں کا غصہ تین د ن میں اترے گا۔ اس دوران ان سے تعرض ( interfere )نہ کیا جائے“ ۔انہوں نے بتایا کہ اگر پولیس کے کام کرنے کے اسٹینڈرڈ طریقہ¿ عمل (Standard Operating Procedure) پر عمل کیا جائے تو کوئی فساد نہیں ہوسکتاہے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس بہت کرپٹ ہے اور اس کی مثال دی کہ ان کے زمانے میں احمد آباد شہر کے ہر پولیس اسٹیشن کی ماہانہ غیر قانونی آمدنی تقریباً ۵۲ لاکھ روپئے ماہانہ تھی۔انہوں نے کہا کہ مودی اور بی جے پی دراصل کانگریس کی نرم ہندوتوا کی پالیسیوں کی وجہ سے کامیاب اور طاقتور ہوئے ۔ گجرات فسادات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ قانون کی خلاف ورزی گودھرا ہی سے شروع ہوگئی تھی جب ۷۲ فروری کو گودھرا ٹرین میں مرنے والے لوگوں کی لاشیں وی ایچ پی کے حوالے کردی گئیں حالانکہ قانون کی رو سے کوئی لاش صرف اس کے قانونی وارث کو ہی دی جاسکتی ہے۔ وی ایچ پی نے ان لاشوں کو گودھرا سے لیکر احمدآباد تک پورے ہنگامے کے ساتھ پریڈ کرایا اور جگہ جگہ ان لاشوں کی نمائش کی اور یوں دنگوں کا ماحول تیار کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ فیض آباد سے آنے والے رام بھکتوں نے اپنے پورے سفر کے دوران مسافروں اور اسٹیشن کے لوگوں سے بدتمیزی کی۔ گودھرا اسٹیشن پر بھی انھوں نے یہی بدتمیزی روا رکھی، اسٹیشن پر چائے وغیرہ بیچنے والوں کے پیسے نہیں دئے اور ایک مسلم بچی کو زبردستی کھینچ کر اپنی کوچ کے اندر بھی لیجانے کی کوشش کی۔انہوں نے بتایا کہ اس پورے سفر میں پولیس کے طریقے کے مطابق رام بھکتوں کے ساتھ مخبر بھی شامل تھے جو پولیس کو مستقل طور پر رام بھکتوں کی حرکتوں کے بارے میں اطلاع دے رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ کوچ نمبر ۶ میںآگ گودھرا اسٹیشن پر نہیں لگی بلکہ اسٹیشن سے نکلنے کے بعد لگی۔وہاں سے نکلنے کے بعد ٹرین پر پتھربازی کی گئی کیونکہ رام بھکتوں کی بدتمیزی ، پیسے نہ دینے اور مسلم لڑکی کے اغوا کی کوشش کے بارے میں پاس کی مسلم آبادی کو اطلاع مل گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ رام بھکتوں نے ہی ٹرین کو زنجیر کھینچ کر روکا لیکن یہ بات اب تک نہیں معلوم ہو سکی ہے کہ آگ کس طرح لگی۔ 
ٹرین میں باقاعدہ بکنگ کراکے کچھ لوگ سوار تھے ،جن کی تفصیلات ریلوے کے پاس موجود ہیں اور وہ بچ گئے تھے، لیکن ان سے کبھی سوال وجواب نہیں کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ ہر جرم کے بعد پولیس کا اسٹینڈرڈ پروسیجر ہے کہ مشتبہ لوگوں کے ذریعے اس جرم کوتمثیلی طور پر دوبارہ کراکر (reconstruct)دیکھا جاتا ہے لیکن گودھرا کے حادثے کی جانچ میں یہ اسٹینڈرڈ پروسیجر نہیں اپنایا گیا۔انہوں نے بتایاکہ شروع میں گودھرا حادثے کے لئے ”سازش“(کانسپریسی) کا لفظ پولیس کی کیس ڈائری میں نہیں استعمال کیا گیا تھابلکہ حادثے کے پندرہویں دن اس حادثے کے بارے میں کیس ڈائری میں ”سازش“ کا لفظ شامل کیا گیا۔