اب سے دس سال پہلے اترپردیش کے دادری ٹاو¿ن میں محمداخلاق کو ہجومی تشددمیں ہلاک کرنے کی جو دل دہلادینے والی واردات ہوئی تھی ، آج اس بہیمانہ واردات کو انجام دینے والے سفاک قاتلوں کو بری کرنے کی تیاری چل رہی ہے اور یہ کام کوئی اور نہیں خوداترپردیش کی وہ سرکار انجام دینے جارہی ہے، جس نے ان ظالموںکے خلاف قتل کی سنگین واردات کا مقدمہ درج کیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس وقت یہ واردات ہوئی تھی تب اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کی سرکار تھی اور آج وہاں بی جے پی اقتدار میں ہے، جو گائے اور گوبر کو انسانوں سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ اترپردیش سرکار نے اخلاق کے قاتلوں کو تمام الزامات سے بری کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں لیا ہے جب گواہیاں ہوچکی ہیں اور کیس اپنے آخری مراحل میں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اخلاق کے قاتلوں کو بری کرنے کا حکم کسی اور نے نہیں خود اترپردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل نے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ معاملہ صدرجمہوریہ دروپدی مرمو کی ٹیبل تک پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ سی پی ایم لیڈر اورانسانی حقوق کی جانباز کارکن برندا کرات نے صدرجمہوریہ کو لکھے گئے خط میں کئی اہم اوربنیادی موضوعات کو اٹھایا ہے اوران سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی ہے چونکہ ریاستی گورنر کی تقرری صدرجمہوریہ کے ذریعہ کی عمل میں آتی ہے۔
برندا کرات نے صدرجمہوریہ دروپدی مرمو کو لکھا ہے کہ” اترپردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل کی اجازت سے گریٹر نوئیڈا کی عدالت میں اخلاق قتل کیس کے ملزمان کو بری کرنے کے لیے دائر کیا گیا حلف نامہ پوری طرح غیرقانونی ہے۔ “واضح رہے کہ حال ہی میں ریاست کی گورنر آنندی بین پٹیل نے یوگی سرکار کو ملزمان کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی اجازت دی ہے ۔ یہ اجازت ملزمان کے خلاف ثبوت عدالت میں دائر کئے جانے کے بعد دی گئی ہے۔برندا کرات نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ” اگر حکومت قتل ، اقدام قتل اور ہجومی تشدد کے مقدمات کو واپس لینے کے لیے سیاسی طورپر ایسا قدم اٹھارہی ہے تو کیا گورنر کو حکومت کو ایسا نہ کرنے کا مشورہ نہیں دینا چاہئے۔برندا کرات نے اپنے مکتوب میں صدر مرمو سے مداخلت کرنے اور گورنر کو اپنی اجازت واپس لینے کی ہدایت دینے کی درخواست کی ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت بھی عدالتی کارروائی کے فعال مرحلے میں ہے اور متعدد گواہوں کی گواہی جاری ہے ۔ اس دوران مقدمہ واپس لینے کی پیش رفت نے بحث کو ایک نیا رخ دے دیا ہے ۔ سرکاری ذرائع کے مطابق یوپی حکومت کے محکمہ انصاف (فوجداری )نے 25اگست 2025 کو ایک حکم نامہ جاری کرکے اس مقدمے کو واپس لینے کی منظوری دی تھی ۔ بعدازاں 12 ستمبر2025 کو جوائنٹ ڈائریکٹر استغاثہ نے ضلع سرکاری وکیل (فوجداری )کو کارروائی آگے بڑھانے کی ہدایت دی ۔ حکم نامے میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ321 کے تحت ریاستی گورنر نے مقدمہ واپسی کی اجازت دے دی ہے۔اس پر سوال کھڑا کرتے ہوئے برندا کرات نے صدر جمہوریہ کو لکھا ہے کہ ”گورنر نے اترپردیش حکومت کو انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے اور پورے معاملے کو واپس لینے کے مکمل طورپر غیرقانونی اور غیرمنصفانہ کوشش کو آگے بڑھانے کے لیے تحریری اجازت دے دی ہے، جبکہ کلیدی گواہ پہلے ہی ثبوت دے چکا ہے۔“انھوں نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے ’ چونکہ گورنر کی تقرری آپ نے کی ہے اور وہ آپ کو جوابدہ ہیں ۔ اس لیے میں نے انصاف کے حق میں آپ کو حقائق سے آگاہ کرنا اور آپ سے فوری مداخلت کی درخواست کرنا مناسب سمجھا ۔‘انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’اس قتل سے پورے ملک میں غم وغصہ پیدا ہوگیا تھا اور حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ مجرموں کو سزا دی جائے گی ۔“ برندا نے سوال اٹھایا ہے کہ” کیا آئین اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا گورنر کا فرض نہیں ہے ؟ اگر ایسا مقدمہ واپس لیا جاتا ہے تو نظام عدل کا کیاہو گا ؟ کیا یہ ہجومی تشدد کے تمام معاملات پر نافذ نہیں ہوگا ؟ کیا ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ایسے مقدمات کو واپس لینا ضروری ہے۔“
واضح رہے کہ بدترین ہجومی تشدد کا شکار ہونے والے محمداخلاق کے قاتلوں کو بری کرنے کا فیصلہ ریاستی گورنر کی اجازت سے خود اترپردیش سرکار نے لیا ہے ۔ یہ وہی سرکار ہے جس نے خود ایک دونہیں پورے اٹھارہ لوگوں کے خلاف اخلاق کے قتل کا مقدمہ دائر کیا تھا ، لیکن اب اس وحشیانہ قتل کے مجرموں کو تمام الزامات سے بری کرنے کے لیے کارروائی شروع کردی گئی ہے۔سرکاری وکیل بھاگ سنگھ بھاٹی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” سرکار کی طرف سے مقدمہ واپس لینے کے لیے باقاعدہ خط موصول ہوا ہے ۔ یہ عر©ضی سورج پور عدالت میں دائر کردی گئی ہے ۔ہجومی تشدد کی سب سے سنگین واردات کے مجرموں کو بری کرنے کے اس فیصلے نے محمداخلاق کے کنبے کو شدید صدمے میں مبتلا کردیا ہے ۔ اتنا ہی نہیں انسانی حقوق کے ان کارکنوں میں بھی مایوسی کی لہر ہے جو اس سنگین ترین واردات کے مجرموں کو عبرتنا ک سزا دئےے جانے کا انتظار کررہے تھے۔ جی ہاں یہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش ہے جہاں احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنے والوں کو سنگین دفعات کے تحت سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے اور بہیمانہ قتل جیسی سنگین واردات کے مجرموں کو بری کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اخلاق کے قتل کی واردات رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ دن کے اجالے میں ہوئی تھی ، لیکن پھر بھی حکومت طاقت کی چکا چوند میں انصاف کے تقاضوں کو پامال کررہی ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ راجدھانی دہلی سے پچا س کلو میٹر دور غازی آباد کے دادری قصبے میں 28 ستمبر 2015کو عید الاضحی کے موقع پر محمد اخلاق کو وحشیوں کے ایک ہجوم نے اس الزام میں انتہائی بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا تھا کہ اس نے اپنے گھر کے فریج میں گائے کا گوشت رکھا ہوا تھا۔ یہ حملہ باقاعدہ ایک مندر سے اعلان کرنے کے بعد کیا گیا تھا ۔ وحشی درندوں نے محمداخلاق کو اتنی بے رحمی سے قتل کیا تھا کہ اس کی تفصیلات پڑھ کر روح کانپ گئی تھی۔ یہ ملک میں ہجومی تشدد کی اپنی نوعیت کی پہلی واردات تھی اور اس پر کافی ہنگامہ بھی برپا ہوا تھا ۔ اخلاق کے گھر والوں نے مجرموں کی باقاعدہ شنا خت کی تھی اور ان کے خلاف ثبوت بھی فراہم کئے تھے۔لیکن اس واقعہ کے دس سال بعد مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے انھیں بری کرنے کے فیصلہ نے سبھی کو حیران کردیا ہے۔ سب سے زیادہ پریشانی اخلاق کے ان اہل خانہ کو ہے جو انصاف کی راہ دیکھ رہے تھے۔اخلاق کے گھر والے گہرے صدمے میں ہیں ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بدترین مجرموں کے خلاف مقدمے واپس لینے کی جو کارروائی شروع کی گئی ہے، اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے سماجی ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوگا۔جس صوبے میں بدترین قاتلوں اور ظالموں کو بری کئے جانے سے سماجی ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو، اس میں انصاف اور قانون کی اصل صورتحال کا پتہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہی انصاف کا تقا©ضہ ہوا کرتا تھا ، لیکن اب یہ زمانہ ہے کہ خود حکومت وحشی درندوں کے حق میں کھڑی ہوگئی ہے۔
اس کے برعکس بہرائچ کی ایک عدالت نے گزشتہ سال مورتی وسرجن کے دوران ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں رام گوپال مشرا کی موت کے معاملے میں ایڈیشنل سیشن جج پون کمار شرما نے سرفراز کو سزائے موت سنائی ہے اور باقی 9 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ صادر کرتے وقت فاضل جج ہندوستانی آئین کی بجائے منوسمرتی کا حوالہ دیا ہے۔یعنی اب اس ملک میں انصاف دستور اورقانون کے تحت نہیں بلکہ منوسمرتی کی بنیاد پر ہوگا۔