Jadid Khabar

مسلمانوں کی حب الوطنی پرسوال

Thumb

کیا آپریشن سندور کے دوران ہندوستانی مسلمان دشمن کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے؟کیا انھوں نے دہشت گردی کے خلاف اس محاذ آرائی میں حکومت اور فوج کا ساتھ نہیں دیا؟کیاانھیں اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لییآگ کے دریا سے گزرنا ہوگا؟
یہ اور اس قسم کے دیگر  سوالات وزیرداخلہ امت شاہ کے اس  بیان سے پیدا ہوئے ہیں جو انھوں نے حال ہی میں بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کو نشانہ بناتے ہوئے کلکتہ میں دیا ہے۔ انھوں نے بی جے پی کارکنوں کی ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ”وزیراعلی ممتا بنرجی نے مسلم ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لیے’آپریشن سندور‘کی مخالفت کی۔“ امت شاہ نے یہ بھی کہا کہ’’ممتا دیدی آپریشن سندور کی مخالفت کرکے اس دیش کی ماں بہنوں کی توہین کررہی ہیں۔2026کے انتخابات میں بنگال کی ماں بہنیں آپریشن سندور پر تنقید کرنے کے لیے وزیراعلیٰ اور ترنمول کانگریس کو سبق سکھائیں گی۔“
 امت شاہ کے اس بیان کے بعد ہم نے اس کی بہت چھان بین کی کہ ممتا بنرجی نے کب اور کہاں ’آپریشن سندور‘ کی مخالفت کی اور اس کے ذریعہ اپنے مسلم ووٹ بینک کو ’خوش‘کیا۔ بہت تلاش کرنے کے بعد بھی ہمیں ممتا بنرجی کا ایسا کوئی بیان نظر نہیں آیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ امت شاہ نے کلکتہ میں ممتا بنرجی اور مسلمانوں کی تعلق سے جو کچھ کہا ہے وہ سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔یہ بیان مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ممتا بنرجی کی وطن دوستی پر بھی سوال قائم کرنے کے لیے دیا گیا ہے تاکہ عام ہندو ان سے برگشتہ ہوجائیں۔
 سبھی جانتے ہیں کہ اگلے سال مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی وہاں کے اقتدار پر قبضے کے خواب دیکھ رہی ہے۔مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کا جادو برقرار ہے اور یہ اسی وقت ٹوٹ سکتا ہے جب وہاں کے عوام کو گمراہ کیا جائے۔ ظاہر ہے یہ بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کا ایک حصہ ہوسکتا ہے، لیکن کیا ملک کے وزیرداخلہ کی کرسی پر بیٹھے ہوئے کسی شخص کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی خواہشوں کی تکمیل کے لیے سفید جھوٹ کا سہارا لیں اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان قائم کریں؟
دنیا جانتی ہے کہ جس وقت ہماری بہادر فوج نے ’آپریشن سندور‘ شروع کیا تو ملک کے دیگر عوام کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمان بھی اس کی پشت پر کھڑے ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے اس موقع پر اپنی  حب الوطنی کا بہترین ثبوت پیش کیا۔ عام مسلمان ہی نہیں مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادت بھی اس معاملے میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ یہاں تک کہ جب حکومت نے پاکستان کو ’بے نقاب‘ کرنے کے لیے پارلیمانی وفد غیرملکوں میں بھیجے تواس میں بھی بیرسٹر اسد الدین اویسی، غلام نبی آزاد اور سلمان خورشید جیسے سرکردہ مسلم لیڈران شامل کئے گئے ، جنھوں نے پرزور طریقے سے ہندوستانی موقف کی عالمی سطح پر ترجمانی کی۔اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ملک پر جب کوئی آنچ آتی ہے تو ملک کے باشندے اور سیاسی قیادت اپنے تمام اختلافات بھلاکر ایک پرچم کے نیچے جمع ہوجاتے ہیں۔اس سب کے باوجود اگر وزیرداخلہ ’آپریشن سندور‘ کے معاملے میں مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں تو یہ یقینا ان کا ذہنی فطورہی کہا جائے گا۔یہ وہی ذہن ہے جو تمام قربانیاں دینے کے باوجود مسلمانوں کو لااعتبار سمجھتا ہے۔ جو کرنل صوفیہ قریشی جیسی بہادر بیٹی کو دہشت گردوں کی بہن سمجھتا ہے۔جوقدم قدم پر مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ 
دنیا جانتی ہے کہ جب پہلگام میں دہشت گردو ں نے26بے گناہ سیاحوں کو سفاکی سے موت کے گھاٹ اتارا تو اس کی جتنی مذمت مسلمانوں اور مسلم تنظیموں نے کی اتنی شاید ہی کسی اور فرقہ نے کی ہو۔وادی کشمیر کے عوام نے دہشت گردی کو پوری طرح مسترد کردیا اور وہ لوگ بھی میدان میں آگئے جوکبھی اس قسم کی وارداتوں پر سامنے نہیں آتے تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پہلگام حملہ کے بعد وادی کشمیر کے عوام کی اقتصادی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ بے دست وپا ہوگئے ہیں۔ اس حملہ کے بعد کشمیر کے سیاحتی مقامات ویران پڑے ہیں اور وہاں کے لوگ نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی میں دہشت گردی کے خلاف ایسا اتحاد شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملا ہو۔کشمیری ہی نہیں پورے ملک کے مسلمانوں نے ایک آواز ہوکر پہلگام حملے کی شدیدالفاظ میں مذمت کی، لیکن اس کے باوجود ظلمت پسند طاقتوں نے مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھی اور ملک میں لنچنگ کی وارداتیں بھی ہوئیں۔
وزیرداخلہ امت شاہ نے اپنی کلکتہ کی تقریر میں بنگلہ دیشی دراندازی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے اس کے لیے بھی ممتا بنرجی کو قصوروار قراردیا۔ انھوں نے کہا کہ”ممتا دیدی نے اقتدار میں آنے کے بعد بنگال کی سرزمین کو دراندازی، بدعنوانی، جرائم اور ہندوؤں پر مظالم کا مرکز بنادیا ہے۔“ انھوں نے یہ بھی کہا کہ”دیدی آخر کب تک تشدد کرنے والوں کو بچاتی رہیں گی۔ آپ کا وقت پورا ہوگیا ہے اور 2026 میں مغربی بنگال میں بی جے پی کی سرکاربنے گی۔“وزیرداخلہ امت شاہ کی اس تقریر پر ترنمول کانگریس نے بھی تیکھا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پارٹی کی راجیہ سبھا ممبر سگاریکا گھوش نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ’’شاہ کی زبان ہندوستان کے وزیرداخلہ کی نہیں بلکہ بی جے پی ورکر کی طرح ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ترنمول کانگریس حکومت ہند کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے، جب ہمارے قومی جنرل سیکریٹری ممبران پارلیمنٹ کے وفد کے ساتھ غیرممالک کا دورہ کرکے بھارت سرکار کے لیے مضبوطی سے بول رہے ہیں، اس وقت وزیرداخلہ بنگال آتے ہیں اور بی جے پی ورکر کی طرح بیان دیتے ہیں اور ہماری وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کے خلاف گھٹیا زبان کا استعمال کرتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’امت شاہ کی سیاست محض پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی سیاست ہے۔“
 ایک ایسے وقت میں جب ملک نازک دور سے گزررہا ہو تو ملک کے وزیرداخلہ کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ بالغ نظری کا ثبوت دیں اور کسی بھی ایسے بیان سے پرہیز کریں جس کا منفی اثر ہوتا ہو، کیونکہ ملک کی اندرونی سلامتی کی ذمہ داری ان ہی کے کاندھوں پر ہے۔ اگر وہی ملک کے باشندوں کے درمیان نفاق پیدا کریں گے تو پھر ملک میں اتحاد کیسے قائم رہے گا۔ وزیرداخلہ نے آپریشن سندور کے پس منظر میں مسلمانوں کے حوالے سے جو بیان دیا ہے وہ انتہائی غیرذمہ دارانہ ہے۔ ایسے بیان کی توقع تو عام کارکنوں سے بھی نہیں کی جاسکتی۔چہ جائیکہ ملک کا وزیرداخلہ اس قسم کا بیان جاری کرے۔جہاں تک ووٹ بینک کی سیاست کا سوال ہے تو دنیا جانتی ہے کہ بی جے پی ’آپریشن سندور‘کا سیاسی فائدہ اٹھانے اور ہندوووٹ بینک کو کیش کرنے میں شروع سے ہی مصروف ہے اور اس کا ثبوت وزیراعظم نریندر مودی کی وہ ریلیاں ہیں جو وہ بی جے پی کے انتخابی نشان کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں کررہے ہیں۔