Jadid Khabar

ناگپور فساد کا اصل مجرم کون؟

Thumb

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ فسادہمیشہ سیاسی مقاصد کے تحت بھڑکائے جاتے ہیں، مگرعام طورپر وہ لوگ بے نقاب نہیں ہوپاتے جو کسی بھی فساد کی انجینئرنگ کرتے ہیں، لیکن ناگپورکے حالیہ فساد کو  شہ دینے کاکام اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے جن لوگوں نے کیا تھا، وہ پہلی ہی نظر میں بے نقاب ہوگئے۔یہی وجہ ہے کہ اورنگزیب کے نام پر طوفان برپا کرنے والوں کے بارے میں خود آرایس ایس کو یہ کہنا پڑا کہ ”موجودہ دور میں اورنگزیب کی کوئی معنویت نہیں ہے، اس لیے اس پر ہنگامہ نہ برپا کیا جائے۔“ اب یہ پوری طرح واضح ہوگیا ہے کہ ناگپور کو آگ لگانے کا کام وشو ہندوپریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں نے کیا تھا جو مغل شہنشاہ اورنگزیب کی قبر کو مسمار کرنے کے مطالبات میں وہاں احتجاج کررہے تھے۔ انھوں نے پہلے اورنگزیب کی ایک علامتی قبر بنائی اور پھر اس پردرگاہوں پر چڑھائی جانے والی ایک چادر چڑھائی جس پرکلمہ طیبہ درج تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس چادر کو پہلے روندا گیا اور پھر اسے علامتی قبر کے ساتھ نذرآتش کردیا گیا۔ مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلی کہ قرآن سوزی کی کریہہ حرکت انجام دی گئی ہے۔یہیں سے حالات بے قابو ہوئے اور بڑے پیمانے پر آگ زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔ حکومت نے اسے منصوبہ بند ساز ش قراردے کرمسلمانوں کے خلاف جارحانہ کارروائی شروع کردی ہے۔یہاں تک کہ اس کے تاربنگلہ دیش تک جوڑدئیے گئے ہیں اور این آئی اے کی ایک ٹیم تحقیقات کے لییناگپور  پہنچ چکی ہے۔
پولیس نے بارہ سو لوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے ہیں اور جن چھ مسلم نوجوانوں پر غداری کا مقدمہ قائم کرکے جیل بھیج دیا ہے، ان میں ایک مقامی سماجی کارکن فہیم خان بھی ہیں جنھوں نے سب سے پہلے پولیس اسٹیشن جاکر یہ مطالبہ کیا تھا کہ وشوہندپریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں کی انتہائی اشتعال انگیز حرکت پر قانونی کارروائی کی جائے۔ پولیس نے بعد کو بجرنگ دل اور وشوہندو پریشد کے ارکان کے خلاف اتنی معمولی دفعات میں مقدمہ درج کیا کہ انھیں شام کو ہی تین تین ہزار روپے میں ضمانت دے کراسی باعزت طریقے سے گھر بھیج دیا گیا جس باعزت طریقہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔یہی دراصل موجودہ سیاسی نظام کی خوبی ہے کہ اس میں اصل مجرموں کی پشت پناہی کی جاتی ہے جبکہ بے گناہوں کوسنگین مقدمات میں ملوث کرکے برسوں کے لیے جیل بھیج دیا جاتاہے۔ پولیس اب تک سوسے زیادہ مسلمانوں کے گھروں پر دبش دے کر انھیں گرفتار کرچکی ہے۔یہ وہ مسلمان ہیں جو رمضان کے مہینے میں تراویح پڑھ پڑھ کر اپنے گھروں کو پہنچے تھے۔سابق ممبر اسمبلی انیس احمد کا کہنا ہے کہ تمام پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ 
  ناگپورشہر کی تین سوسالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔جی ہاں یہ وہی ناگپور ہے جہاں آرایس ایس کا ہیڈکوارٹر ہے اور جو صوبائی وزیراعلیٰ دیوندر فڑنویس کا اسمبلی حلقہ انتخاب ہے۔اتنا ہی نہیں یہ بی جے پی کے ’سیکولر فیس‘  نتن گڈکری کا پارلیمانی حلقہ بھی ہے۔ناگپور اپنے سنتروں کے لیے مشہورہے اور ان سنتروں کی سب سے بڑی شناخت ان کا زعفرانی رنگ ہے۔اسی زعفرانی رنگ میں ملبوس بہادروں کی ایک فوج آج کل پورے ملک میں ایک قبر سے لڑرہی ہے۔ ظاہر ہے جو لوگ زندہ لوگوں سے لڑنے کی ہمت نہیں رکھتے وہ قبروں سے لڑتے ہیں اور اسی کو اپنی بہادری بھی سمجھتے ہیں۔یہ قبر کسی عام آدمی کی نہیں مغل بادشاہ اورنگزیب کی ہے، جو مہاراشٹر کے خلد آباد علاقہ میں واقع ہے۔ پچھلے ماہ جب میں نے اورنگ آباد کے سفر کے دوران اس قبر پر حاضری دی تھی تو یہاں ایک پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی کے دوجوان تعینات تھے جن کی دلچسپی اس قبرکے تحفظ سے زیادہ اپنے موبائل فون میں تھی۔یہ قبر محکمہ آثار قدیمہ کے تحت محفوظ مقامات کے زمرے میں آتی ہے اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے۔لہٰذا تازہ تنازعہ کے بعد اس قبر کی سیکورٹی بہت سخت کردی گئی ہے۔قبر کے احاطہ کو نہ صرف ٹین کی چادروں سے ڈھک دیا گیا ہے بلکہ اس کے آس پاس ڈرون اڑانے پر بھی پابندی عائد کردی گئیہے۔ اب وہاں پولیس کے پچاس سے زائد جوان پہرہ دے رہے ہیں۔
فروری کے شروع میں جب مجھے اورنگزیب عالمگیر کی قبر دیکھنے کی جستجو وہاں لے گئی تھی تو صورتحال آج جیسی نہیں تھی، ہاں کچھ مجاوروں نے تصویر کشی سے باز رہنے کے لیے ضرور کہا تھا مگر پھر بھی میں نے اورنگزیب کی قبر اور اس کے احاطے میں چند تصویریں اتروائیں۔ اورنگ زیب کی قبر پر اس قدر سیکورٹی تعینات کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کئی زعفرانی عناصر نے اس قبر کو مسمار کرنے کی دھمکیاں دی ہیں اور زعفرانی حکومت پر خود اپنے ہی عناصر کا دباؤ شدید ترہے، لیکن وزیراعلیٰ فڑنویس نے اسمبلی میں دل پر پتھر رکھ کر یہ اعلان کیا ہے کہ اورنگ زیب کی قبر محکمہ آثار قدیمہ کے تحت ایک محفوظ یادگار ہے۔ نہ تو اسے مسمار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہٹایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ”کچھ بھی ہوجائے ہم اورنگ زیب کی تعریف وتوصیف برداشت نہیں کریں گے۔“اگر غور سے دیکھا جائے تو اورنگ زیب کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عداوت کو فروغ دینے میں سب سے زیادہ ہاتھ وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس اور ان کے نائب ایکناتھ شندے ہی کاہے۔ ریاستی وزیرنارائن رانے اور بعض دیگر لیڈروں نے بھی آگ بھی گھی ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔دراصل اورنگزیب کو سب سے بڑا موضوع بنانے کے پیچھے مہاراشٹر سرکار منشا یہ ہے کہ کسی طرح ان ناکامیوں کی پردہ پوشی کی جائے جو ریاستی حکومت کو درپیش ہیں۔ مہاراشٹر میں اس وقت فڑنویس سرکار کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے اور عوام ان سے سوال پوچھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ کسانوں کی خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ہے۔ بلدیاتی انتخابات بھی سرپر ہیں۔ایسے میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے فڑنویس سرکار نے اورنگزیب کی تین سوسال سے زیادہ پرانی قبر میں منہ چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے۔
اورنگ زیب کی قبر کے بارے میں تفصیلات میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں بھی بیان کی تھیں۔ دراصل اورنگزیب کی زندگی کا آخری حصہ مہاراشٹر میں فتوحات کے دوران گزرا اور3/مارچ 1707میں احمدنگر میں ان کی موت ہوئی۔ اپنی موت سے قبل انھوں نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ انھیں آٹھویں صدی کے صوفی بزرگ زین الدین شیرازی کے پہلو میں دفن کیا جائے جن کا مزار اورنگ آباد سے تیس کلومیٹر دور خلد آباد میں واقع ہے۔ اورنگزیب اپنی زندگی میں صوفی بزرگ زین الدین شیرازی سے روحانی تعلق رکھتے تھے اور اکثر ان کے مزار پر حاضری دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے خود کو صوفی زین الدین کی پائینتی میں دفن ہونے کی وصیت کی اور یہ بھی کہا تھا کہ ان کی قبر کچی رکھی جائے اور اس پر کوئی مزار یا مقبرہ تعمیر نہ کیا جائے۔روایت ہے کہ ان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین پر چودہ روپے بارہ آنے کی وہ رقم خرچ کی گئی جو انھوں نے ٹوپیاں سی کر جمع کی تھی۔دوسوسال تک یہ قبر کچی ہی رہی، لیکن 1921میں لارڈ کرزن کی خواہش پر نظام حیدرآباد نے اس قبر کے گرد سنگ مرمر کا احاطہ بنوایا، لیکن قبر کا حصہ پھر بھی کچا ہی چھوڑ دیا گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اورنگزیب کی موت کو سوا تین سو سال گزرنے کے بعدان کی اسی قبر کو سیاسی ریشہ دوانیوں کا مرکزبنایا جارہا ہے۔ اس کا آغاز پچھلے دنوں ریلیز ہوئی ہندی فلم ’چھاوا‘ سے ہوا ہے جس میں اورنگزیب کا کردار اس حد مسخ کردیا گیا ہے کہ اسے دیکھ کر لوگ جنونی کیفیات سے دوچار ہورہے ہیں۔ خود وزیراعلیٰ دیوندر فڑنویس نے ناگپور کی صورتحال پر اسمبلی میں یہ تسلیم کیا ہے کہ فلم ’چھاوا‘ دیکھ کر لوگوں کے جذبات برانگیختہ ہوئے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی خود اس فلم کی تعریف کرچکے ہیں اور اسے حقیقت پسند بھی قرار دے چکے ہیں۔یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب حکومت کو یہ معلوم تھا کہ یہ فلم لوگوں کے جذبات مشتعل کرسکتی ہے تو اسے ریلیز کرنے کی اجازت کیوں دی گئی۔ نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ زعفرانی بریگیڈ نے جگہ جگہ اس کے شو بھی کرائے اور اب بھی اس شرانگیز فلم کی نمائش جاری ہے۔ وزیراعلیٰ فڑنویس کے پاس مہاراشٹر کے وزیرداخلہ کا بھی چارج ہے اور اس اعتبار سے وہ اپنے صوبے میں نظم ونسق قائم رکھنے کے بھی ذمہ دار ہیں، لہٰذاخود اپنے ہی حلقہ انتخاب میں امن وقانون برقرار نہ رکھنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انھیں فوری طورپر مستعفی ہوجانا چاہئے۔