اترپردیش کے بہرائچ میں اس وقت سناٹا چھایا ہوا ہے۔ گزشتہ اتوار کو یہاں کے مہاراج گنج علاقہ میں درگا مورتی وسرجن جلوس کے دوران شرپسندوں کی انتہائی اشتعال انگیز حرکتوں کے نتیجے میں تشدد پھوٹ پڑا تھا۔تشدد کے دوران ایک نوجوان کی موت واقع ہوگئی ہے۔ بائیس سال کے رام گوپال مشرا کی موت پر سبھی کو افسوس ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نوجوان نے جلوس کے دوران ایک مسلمان کے مکان کی چھت پر چڑھ کر وہاں لہرارہے سبز پرچم کو زبردستی ہٹاکر بھگوا جھنڈا پھیرا یا تھا۔جھنڈا پھیرانے کے دوران اتنی زورآزمائی کی گئی کہ چھت کی ریلنگ بھی ٹوٹ گئی۔ جس وقت یہ نوجوان سبز پرچم اتارنے کی کوشش کررہا تھا تو جلوس میں شامل دیگر نوجوان اشتعال انگیز نعرے لگارہے تھے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ انھوں نے کوئی بڑی فتح حاصل کرلی ہے۔جلوس کے دوران کان پھاڑدینے والی آواز میں ڈی جے بھی بجایا جارہا تھا۔اس پوری کارستانی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپنی تمام اشتعال انگیزیوں کے ساتھ موجود ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس نوجوان کو”جاں باز“قرار دیتے ہوئے اس کے پسماندگان سے ملاقات کی ہے اور دس لاکھ کا معاوضہ دینے کے ساتھ اس کے گھر کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت اور گھر دینے کا وعدہ کیا ہے۔اگر وزیراعلیٰ کے نزدیک کسی کے گھر میں داخل ہوکر شر پھیلانا ہی جاں بازی ہے تو ایسی جاں بازی وزیراعلیٰ کو مبارک ہو۔ہمیں اس پر مزید کچھ نہیں کہنا ہے۔
فسادیوں سے سختی برتنے کے وزیراعلیٰ کے احکامات کے بعد پولیس اور انتظامیہ نے مسلمانوں پر دبش دی ہے اور درجنوں مسلمانوں کو گرفتار کرلیا ہے۔رام گوپال مشرا پر گولی کس نے چلائی، یہ ابھی واضح نہیں ہے، لیکن اس نے جس مسلمان کے مکان پر زعفرانی پرچم لہرایا تھا، اسے اور اس کے بیٹوں کوہی مشرا کے قتل کا قصوروار قراردیا گیا ہے۔ شکر ہے ابھی تک اس کے گھر پر بلڈوزر نہیں چلا ہے، کیونکہ سپریم کورٹ نے ایسا کرنے پر عبوری پابندی لگا رکھی ہے۔
واقعہ کے اگلے روز شرپسندوں نے مسلمانوں کے مکانوں، دکانوں اور عبادت گاہوں پر حملے کئے اور انھیں نذرآتش بھی کیا۔ بڑی تعداد میں غریبوں کے گھر اور کاروبار جلادئیے گئے ہیں۔ ہرفساد کی طرح یہاں بھی پولیس کی کارروائی کا رخ یک طرفہ ہے۔تمام گرفتارشدگان وہی ہیں جو ہر فساد کے بعد ہوتے ہیں۔ البتہ ان شرپسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے جنھوں نے درگا وسرجن جلوس کے دوران مسلم محلہ میں پہنچ ناقابل برداشت حرکتیں کیں اور نوبت یہاں تک آئی۔سی سی ٹی وی فوٹیج میں ان لوگوں کی تصاویر موجودہیں جنھوں نے پورے علاقہ میں آگ زنی، تشدد اورلوٹ مار کی ہے، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے اور نہ ہی اس کی امید ہے۔ حالانکہ جس وقت شرپسند سڑکوں پر دہشت پھیلارہے تھے تو پولیس موقع پر موجود تھی، لیکن ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی کے طورپر۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی تھانہ انچارج کو غفلت برتنے کے الزام میں معطل کردیا گیا ہے۔ آگ زنی اور لوٹ مار کرنے والوں کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ انھیں پولیس کا کوئی خوف ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خود اترپردیش پولیس کے اے ڈی جی (نظم ونسق)امیتابھ یش کوخود سڑک پر اتر کر اپنی پستول نکالنی پڑی تاکہ شرپسند عناصر کو ڈرایا جاسکے۔
بہرائچ اترپردیش کا ایک ایسا ضلع ہے جہاں اب تک ہندو مسلمان شیروشکر کی طرح رہتے آئے ہیں۔ بہرائچ میں ملک کی تقسیم کے دوران بھی کوئی واردات نہیں ہوئی تھی، مگر اب بہرائچ کا نام بھی اترپردیش کے فرقہ وارانہ طورپر حساس اضلاع میں ہونے لگے گا اور وہاں فساد شکن فورس کی تادیر تعیناتی رہے گی۔سوال یہ ہے کہ ملک میں اتنی تیزی کے ساتھ ”حساس“شہروں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے۔پورے ملک میں ڈبل انجن کی سرکاروں میں فرقہ وارانہ منافرت اور ظلم وزیادتی کیوں بڑھ رہی ہے؟
اب پورے ملک میں یہ معمول بن گیا ہے کہ جب بھی کوئی دھارمک جلوس نکلتا ہے تو اس میں شامل شرپسند عناصر مسلم محلوں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر درمیان میں کوئی مسجد یا مزار آجائے تو ان کا جوش وخروش دیدنی ہوتا ہے۔ وہ آن واحد میں انھیں نیست ونابود کرناچاہتے ہیں۔ گویا مسجدیں، مزاریا مدرسے اس ملک میں حرف غلط کی طرح ہیں اور انھیں مٹانا ان کی ذمہ داری ہے۔ملک میں آئے دن مسجدوں اور درگاہوں کے خلاف ریشہ دوانیاں ہورہی ہیں۔ کہیں غیرقانونی تعمیر کے نام پر اور کہیں ان کے نیچے مندر ہونے کے نام پر۔دنیا کا ہر مذہب پرامن بقائے باہم کی تعلیم دیتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں اب یہ اصول رائج ہوگیا ہے کہ صرف اکثریتی مذہب کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہوگی۔ دیگر مذاہب اور ان کے ماننے والے اکثریتی فرقہ کے رحم وکرم پر ہوں گے۔
حال ہی میں آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی دسہرے کی تقریر میں بنگلہ دیش کے ہندوؤں اور مندروں پر ہورہے حملوں پرسخت تشویش ظاہر کرتے ہوئے حکومت ہند سے ان کی حفاظت کے پہل کرنے کو کہا ہے۔ انھوں نے پوری دنیا میں آباد ہندوؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کی مددکو آگے آئیں۔ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ بے گناہوں اور کمزوروں پرکہیں بھی ظلم وستم نہیں ہونا چاہئے اور انھیں سراٹھاکر زندہ رہنے کا حق ملنا چاہئے۔ لیکن موہن بھاگوت جی سے ہم یہ ضرور پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ اصول صرف بنگلہ دیش اور پاکستان پر ہی نافذ ہوتا ہے؟ کیا یہ اصول ہندوستان پر نافذ نہیں ہوتا۔جب بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی لنچنگ ہوتی ہے اور انھیں گائے کشی کے جھوٹے الزام میں موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے تو مہذب دنیا کو ایسا ہی افسوس ہوتا ہے جیسا کہ بھاگوت جی کو بنگلہ دیش کے ہندوؤں پر ہورہی مبینہ زیادتیوں پر ہورہا ہے۔ حالانکہ بنگلہ دیش کی حکومت پہلے یہ کہہ چکی ہے کہ واقعات کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جارہا ہے۔ خود عبوری حکومت کے سربراہ محمدیونس نے ایک مندر میں جاکر ہندوؤں کو ان کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔افسوس کہ ہندوستان میں ایسا کرنے کی بجائے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی ہوتی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب بھی ہندوستان میں ہورہے فرقہ وارانہ فسادات اور قتل وغارتگری پر بیرونی دنیا یا کوئی مسلم ملک آواز اٹھاتا ہے تو ہماری حکومت اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دے کر مسترد کردیتی ہے۔ اس اصول سے اگر دیکھا جائے تو مبینہ طورپر بنگلہ دیش کے ہندوؤں کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہورہی ہے تو یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے جس پر بولنے کا موہن بھاگوت یا حکومت ہند کو کوئی حق نہیں ہے۔پچھلے دنوں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے نے جب ہندوستان میں اقلیتوں کی لنچنگ پر تشویس کا اظہار کیا تھا تو ہماری حکومت نے اسے حقارت سے مسترد کردیا تھا۔ایسے میں بنگلہ دیش کے حالات پر ہندوستان کو لب کشائی کا کوئی حق نہیں ہے۔ اقلیتوں کا تحفظ جتنا بنگلہ دیش اور پاکستان میں ضروری ہے،اتنا ہی ہندوستان میں بھی ضروری ہے۔