ناروے کی پناہ گزینوں کے کونسل کے سکریٹری جنرل جان ایگلینڈ نے افغانستان میں طالبان کے سینیئر رہنماؤں سے ملاقات کے بعد خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ان کی تنظیم کو امید ہے کہ وہ اپنے عملے کی خواتین کارکنوں کو جنوبی صوبے قندھار میں کام پر واپس آنے کا اجازت نامہ چند دنوں کے اندر ایک عارضی انتظام کے تحت حاصل کرلے گی۔
انہوں نے کہا، "اگر ہم وہ عارضی مقامی انتظام حاصل کرلیتے ہیں جس کا ہم سے قندھار میں وعدہ کیا گیا ہے تو یہ وہ چیز ہے جسے ہم ملک کے باقی حصوں میں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘
طالبان نے 20سالہ جنگ کے بعد اگست 2021 ء میں امریکی قیادت میں اتحادی افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ طالبان حکام نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں میں کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی عائد کرنا شروع کردی تھی۔ اس سے قبل دسمبر میں خواتین کے امدادی اداروں کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
اقوام متحدہ اور امدادی گروپ خواتین کو امداد فراہم کرنے کے لیے بعض امور بالخصوص صحت اور تعلیم کے شعبوں میں استثناء حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طالبان انتظامیہ جنوری سے ایک گائیڈ لائن تیار کر رہی ہے تاکہ امدادی گروپوں کو خواتین کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔ وزارت اقتصادیات کے ترجمان عبدالرحمٰن حبیب کے مطابق "جیسے ہی حکام کی جانب سے نئی ہدایات جاری کی جائیں گی ہم آپ کو مطلع کر دیں گے۔"
ایگلینڈ کا کہنا تھا کہ جب ہم نے شکایت کی کہ گائیڈ لائنز جاری کرنے میں بہت زیادہ وقت لگ رہا ہے تو قندھار میں طالبان حکام نے کہا کہ چند دنوں کے اندر ایک عارضی انتظام پر اتفاق کیا جائے گا تاکہ افغان خواتین کو دفتروں اور علاقوں میں کام پر واپس جانے کی اجازت دی جائے۔
ایگلینڈ کا کہنا تھا کہ اگر یہ نظم طالبان کے سپریم لیڈر کے جائے قیام، قندھار میں ہو جاتا ہے تو دوسرے جگہوں پر بھی اس طرح کے عارضی انتظامات ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا،"مجھے امید ہے کہ ہم ہی وہ لوگ ہوں گے جو دوسری تنظیموں کے لیے بھی دروازے کھولیں گے اور یہی وہ چیز ہے جو ہم چاہتے ہیں۔" طالبان کہتے رہے ہیں کہ خواتین امدادی کارکنوں کے بارے میں فیصلہ کرنا ان کا داخلی معاملہ ہے۔
انسانی حقوق کی دو معروف بین الاقوامی تنظیموں نے افغانستان میں طالبان کی جانب سے صنفی بنیاد پرامتیازی سلوک کو "انسانیت کے خلاف جرم" قرار دیا اور بین الاقوامی قوانین کے تحت اس کی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس(آئی سی جے)نے جمعے کے روز ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی ہے اور افغانستان میں طالبان کی طرف سے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو سلب کرنے کی انکوائری کرانے کی اپیل کی۔ رپورٹ میں طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں پر عائد کی جانے والی سخت پابندیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
رپورٹ میں خواتین اور لڑکیوں کی طالبان کے اراکین کے ساتھ جبراً شادی کرنے نیز شادی پرمجبور کرنے کے واقعات کا بھی ذکر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شادی کرنے سے انکار کرنے والی لڑکیوں اور خواتین کو"اغوا کرلیا جاتا ہے، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور انہیں اذیتیں بھی دی جاتی ہیں۔"
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل اگنیس کالامارڈ کا کہنا تھا،"افغان خواتین اور لڑکیاں صنفی بنیادوں پر ہونے والے انسانیت کے خلاف جرائم کا شکار ہیں۔ اس جرم کی سنگینی ایک زیادہ موثر بین الاقوامی کارروائی کی متقاضی ہے۔ اور اس کا صرف ایک ہی حل قابل قبول ہے: صنفی جبر اور زیادتی کے اس نظام کو ختم کیا جائے۔"