Jadid Khabar

ہندوؤں کو نہیں ’ہندوستانیوں‘ کو متحد کیجئے

Thumb

متھرا میں منعقدہ آرایس ایس کے سالانہ اجلاس میں سینئر لیڈر دتاتریہ ہوسبولے نے کہا ہے کہ ”اگر ہم ہندو سماج کے لوگ ذات پات، زبان یا صوبائی سطح پر بٹیں گے تو یقینی طورپر کٹیں گے، اس لیے ہندوؤں کا اتحاد ضروری ہے۔“ انھوں نے اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حالیہ بیان ” بٹیں گے تو کٹیں گے“کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ”ہندوؤں کو توڑنے کے لیے کئی طاقتیں سرگرم ہیں، ذاتوں اور نظریات کی بنیاد پر ہندوؤں کو تقسیم کیا جارہا ہے۔“
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ دنوں ہریانہ اسمبلی انتخابات کے دوران ایک انتخابی ریلی میں ہندوؤں کو ذاتوں میں تقسیم کرنے کی اپوزیشن پارٹیوں کی حکمت عملی کے خلاف عوام کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اپوزیشن چاہتی ہے کہ مسلمان متحد ہوکر مضبوط رہیں اور ہندو ذات پات میں بٹ کر کمزور رہیں۔ انھوں نے پڑوسی ملک میں مسلمانوں کے ہاتھوں بے گناہ ہندوؤں کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”اگر ہم  بٹیں گے تو کٹیں گے۔“
قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی طرف سے دیا گیا یہ نعرہ اب بی جے پی کا محبوب نعرہ بن گیا ہے۔ دیوالی کے موقع پر آگرہ شہر میں اس نعرے کے ہورڈنگ لگائے گئے ہیں۔ دیوالی کی مبارکباد کے بہانے بی جے پی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ پیغام بھیج رہی ہے۔ اگلے پانچ دنوں میں پچاس سے زیادہ مقامات پر ایسے ہورڈنگ لگانے کی تیاری ہے۔ ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس نعرے کے پیچھے کیا سوچ کارفرماہے اوور سنگھ پریوار اس کے ذریعہ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت ہندوستان کئی قسم کی وحدتوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ اس میں فرقہ وارانہ منافرت کے ذریعہ سب سے بڑی خلیج ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ڈالی گئی ہے۔ سنگھ پریوار دراصل ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ہی متحد کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔خود وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اپنے بیان میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ  آئینی عہدے پر بیٹھے ہوئے کسی ایسے شخص کو جس نے سب کے ساتھ یکساں سلوک  اور انصاف کرنے کا حلف اٹھایا ہو، یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی خاص فرقہ یا مذہب کے لوگوں کو متحد کرنے کا نعرہ ایجاد کرے، لیکن اسے کیا کہا جائے کہ اب ہمارے ملک میں یہ دستور بن گیا ہے کہ آئینی عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ کھلے عام فرقہ وارانہ زبان بولتے ہیں اور کوئی انھیں ٹوکنے والا نہیں ہے۔ جن لوگوں کو اپنی آئینی ذمہ داریوں تحت تمام ہندوستانیوں کے اتحاد اور فلاح وبہبود کی بات کرنی چاہئے، وہ کھلے عام ہندوؤ ں کا چمپئن بننے کی بات کرتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ عام انتخابات کے دوران وزیراعظم نریندر مودی نے کس طرح مسلمانوں کا نام لے کر باربار یہ کہا تھا کہ”کانگریس پسماندہ ذاتوں کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے اور میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔“یہ بیان بڑے پیمانے پر بحث کا موضوع بنا تھا اور اس معاملے میں الیکشن کمیشن کو بھی متوجہ کیا گیا تھا، لیکن اس پر کہیں کوئی ایکشن نہیں ہوا۔اسی سے تحریک پاکر حکمراں جماعت کے لوگ زیادہ فرقہ وارانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ کتنا ہی اشتعال انگیز بیان کیوں نہ دے لیں، ان کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے۔جب سب سے بڑے آئینی عہدے پر بیٹھا ہوا شخص ہی ایسی زبان بولتا ہوتو پھر نیچے کے لوگ اس سے زیادہ نفاق پیدا کرنے والے بیان دیں گے۔
سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان مختلف ذات برادریوں اور مذاہب کا ملک ہے اور یہاں صدیوں سے لوگ مل جل کررہتے آئے ہیں۔ سبھی نے متحد ہوکر اس ملک کی آزادی اور تعمیر میں حصہ لیا ہے، لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے اس ملک کی اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے اور انھیں دیوار سے لگانے کی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی لنچنگ کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اور بحیثیت شہری ان کا جینا محال ہوتا جارہا ہے۔ ان کی عبادت گاہوں اور دینی تعلیم کے اداروں پر یورشیں ہورہی ہیں۔ملک کی کئی ریاستوں میں مسجدوں کے خلاف مہم چل رہی ہے اور مدرسوں کو ختم کرکے ان کی جگہ جدید تعلیم کے ادارے کھولنے کی وکالت کی جارہی ہے۔ ان کوششوں کا ایک ہی مقصد ہے کسی طرح مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو ختم کیا جائے تاکہ انھیں اپنے آپ میں ضم کرنے میں آسانی ہو۔
ملک کے مختلف حصوں میں نت نئے تنازعات جنم لے رہے ہیں۔شمال مشرقی ریاست منی پور کئی سال سے مسلسل شعلے اگل رہی ہے اور وہاں نظم ونسق پوری طرح ختم ہوگیا ہے لیکن بی جے پی اور آرایس ایس کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ملک کی ایک ریاست میں اتنی بے چینی اور تشدد کیوں پنپ رہا ہے۔اس کے علاوہ کئی دروسری ریاستوں میں بھی صورتحال دگرگوں ہے، لیکن سنگھ پریوار کو صرف اس بات کی فکر ہے ہندوسماج ذات پات کے نام پر تقسیم نہ ہو۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہندوؤں میں ذات پات کی ’پرتھا‘ کس نے شروع کی اور یہ آج تک کیوں ختم نہیں ہوسکی۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ اس کے لیے ہندوسماج میں اونچ نیچ اور چھواچھوت ہی ذمہ دار ہے۔ کیونکہ ہزاروں برس سے اس ملک کے اندر پسماندہ ذاتوں کو حقیر اور اونچی ذاتوں کو اعلیٰ سمجھنے کا رواج ہے۔ہندوسماج میں صرف اعلیٰ ذاتوں کے لوگوں کو تمام حقوق اور سہولتیں دی گئی ہیں۔ نچلی ذاتوں کے لوگوں کو ساتھ بٹھاکر کھانے اور مندروں میں داخل ہونے تک کی اجازت نہیں ہے۔ اسی چھواچھوت کے نتیجے میں پسماندہ ذاتوں کے لوگوں نے بڑی تعداد میں مذہب تبدیل کیا ہے۔کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کے ساتھ برتی جانے والی اس غیر انسانی تفریق کا خاتمہ ہواور سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سنگھ پریوار کے لوگ اپنے سماج میں پھیلی ہوئی ان برائیوں کو دور کرنے کی بجائے ان کا قصور دوسروں کے سرڈالتے ہیں۔وہ اپنے سماج کیبرائیوں کو نہ تو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے ازالے کے لیے فکر مند ہیں۔سماج میں ’بٹنے‘ کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ انسانوں کے ساتھ بھیدبھاؤ کرتے ہیں۔ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس میں رنگ و نسل کی بنیاد پرکسی کو کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔اسلام کے نزدیک چھوٹے اور بڑے کا کوئی بھید نہیں ہے اور یہی عالمی سطح پر اسلام کی مقبولیت کا راز ہے۔ حالانکہ کچھ سیاسی طالع آزماؤں نے اپنے حقیر سیاسی مقاصد کی خاطر مسلمانوں میں بھی اشراف وارذال کی بحث چھیڑ رکھی ہے، لیکن یہ محض اسلام سے لوگوں کو دور کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سنگھ پریوار کے لوگ سب سے پہلے اپنے سماج میں پھیلی ہوئی چھواچھوت کو ختم کریں تاکہ ذات پات کے نام پر بٹنے اور کٹنے کی نوبت ہی نہ آئے۔