مضبوط اپوزیشن کی طاقت ایک بار پھر رنگ لائی ہے۔حکومت متنازعہ وقف ترمیمی بل کو لوک سبھا سے پاس کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اپوزیشن کی زبردست مزاحمت کیبعد مودی سرکار اس بل کو جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے پر مجبور ہوئی۔گزشتہ دس سال کے عرصے میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بل کو پاس کرانے میں حکومت کوناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور اس کاپیش کیا ہوا کوئی مسودہ قانون بیرنگ واپس ہوگیا ہے، ورنہ اب تک مودی سرکار قانون سازی کے معاملے میں اپنی من مانی کرتی رہی ہے۔ اس نے لوک سبھا میں اکثریت کا فائدہ اٹھا کر کئی ایسے بل پاس کرائے ہیں جن پر اپوزیشن کوسخت اعتراض تھا۔ ان ہی بلوں میں ایک تین طلاق کو ختم کرنے کا قانون بھی تھا جس پر مسلمانوں نے زبردست اعتراضات درج کرائے تھے، لیکن ان کی ایک نہیں چلی اور طلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو اس حکومت نے گزشتہ دس سال کے عرصے میں کوئی ایک بھی ایسا کام نہیں کیا ہے جو مسلمانوں کو راحت پہنچانے والا ہو۔ سب ہی کام مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے انجام دئیے گئے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ یہ کام مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے نام پر کئے گئے ہیں۔ وقف ایکٹ میں ترمیم کا شوشہ بھی مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے نام پر چھوڑا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وقف ایکٹ میں ترمیمات سے وقف کی روح نکل جائے گی اور وقف جائیدادوں پر وقف بورڈوں کا کنٹرول برائے نام ہی رہ جائے گا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ وقف ایکٹ میں ایک دونہیں بلکہ چالیس سے زیادہ ترمیمات پیش کی گئی ہیں۔اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے اس بل کو لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے یہ لن ترانی بھی کی اس سے غریب اور پسماندہ مسلمانوں کا بھلا ہوگا۔ اس سلسلہ میں قادیانی اور بوہرہ مسلمانوں کا خاص طورپر تذکرہ کیا گیا ہے کہ یہ ترامیم ان کے مطالبات کی روشنی میں کی گئی ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت اندھیرے میں تیر چلانے پر یقین رکھتی ہے اور اسے بنیادیحقائق کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ بعض نام نہاد مسلمانوں سے ان ترامیم کے حق میں بیان بھی دلوایا گیا۔ ملک کی معروف درگاہوں کے ان نام نہاد سجادگان نے وقف ایکٹ میں کی جارہی ترمیمات کی زبردست وکالت کی ہے۔ یہ گندم نماجو فروش رنگ برنگے مسلمان ہر اس موقع پر اپنے بلوں سے باہر نکل آتے ہیں جب حکومت کو مسلم مفادات کے خلاف کوئی کام کرنا ہوتا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جب سے وقف ترمیمی ایکٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کی خبریں آئی تھیں تبھی سے ملک گیر سطح پر مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی تھی اور تمام ہی سرکردہ مسلم تنظیموں اور قائدین نے اس کی پرزورمخالفت کی تھی اور ان ترامیم کو وقف بورڈوں کی خودمختاری اور ان کے وجود کو ختم کرنے والا قرار دے کر پوری طرح مسترد کردیا تھا۔
سبھی جانتے ہیں کہ2013کے وقف ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کا بنیادی مقصد وقف بورڈو ں کی خودمختاری کو سلب کرنے کے علاوہ انھیں پوری طرح سرکاری مشنری کا دست نگر بنانا ہے۔ ان ترامیم کے ذریعہ وقف بورڈوں کی ساخت بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس میں خواتین کے علاوہ غیرمسلموں کو نمائندگی دینے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ اوقاف کلی طورپر مسلمانوں کی ملکیت ہیں اور وہی اپنی زمین جائیداد فلاحی کاموں کے لیے وقف کرتے ہیں، لیکن جب ان جائیدادوں پر کلکٹروں کا اختیار ہوجائے گا تو وہ ان کا تیاپانچہ کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائیں گے۔ شاید حکومت یہی چاہتی ہے کہ پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہزاروں کروڑ کی وقف جائیدادوں پر وقف بورڈوں کا کنٹرول ختم کرکے انھیں ایسے لوگوں کے سپرد کردیا جائے جو ’زمین مافیا‘ کی ذیل میں آتے ہیں اور جن کا مقصد جائیدادوں کی ہیرپھیر کرکے ناجائز دولت کے انبار جمع کرنا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں اور سرکردہ مسلم ممبران نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی ایکٹ پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور اسے مذہبی آزادی پر جارحانہ حملے سے تعبیر کیا۔
وقف ایکٹ کی لوک سبھا میں پیشی کے دوران کانگریس رکن وینوگوپال نے کہا کہ”یہ دستور سے حاصل مذہبی آزادی کے سراسر خلاف ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ”کیا ایودھیا کی مندر کمیٹی میں کوئی غیر ہندو ممبر موجودہے۔ کیا کسی مندر کی کمیٹی میں کسی غیر ہندو کو رکھاگیا ہے۔ وقف بھی ایک مذہبی ادارہ ہے، پھر اس میں غیر مسلم کیوں؟“ان کا کہنا تھا کہ”ابھی آپ مسلمانوں پر حملہ آور ہیں، پھر عیسائیوں پرحملہ کریں گے اور پھر سکھوں پر۔ انھوں نے اسے سماج میں انتشار پھیلانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل آنے والے اسمبلی چناؤ کے لیے لایا گیا ہے۔بیرسٹر اسدالدین اویسی نے اس معاملے میں مودی سرکار کو مسلمانوں کا دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”حکومت یہ بل ملک کو تقسیم کرنے کے لیے لارہی ہے، جو دستورکی بنیادی دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔“انھوں نے اس بل کو امتیازی اور آمرانہ قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ”ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ وقف جائیدادوں کے انتظامی امور مسلمانوں کے لیے ایک بنیادی مذہبی عمل ہے۔“ سماجوادی پارٹی کے رکن مولانا محب اللہ ندوی نے اس بل کو مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے آئین کو روندا جارہا ہے۔
حالانکہ ایوان میں حکومت کی حلیف جماعتوں جنتا دل (یو)اور تلگو دیشم پارٹی نے اس بل کی تائید کی لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پارٹیاں اسی وقت اس پر تیار ہوئیں جب انھیں یہ بتایا گیا کہ یہ بل جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جارہا ہے۔ حکومت نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے31 ارکان پر مشتمل جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس میں آدھے ارکان حکومت کے اور آدھے اپوزیشن کے ہیں۔اس کمیٹی میں جن سرکردہ مسلم ارکان پارلیمان کو جگہ دی گئی ہے، ان میں لوک سبھا سے بیرسٹر اسد الدین اویسی، مولانا محب اللہ ندوی،عمران مسعود، ڈاکٹرمحمد جاویدہیں جبکہ راجیہ سبھا کے ارکان میں سیدناصر حسین، محمدندیم الحق،اور محمد عبداللہ کے نام شامل ہیں۔آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جے پی سی کے ارکان سے ملاقاتیں کرکے انھیں وقف کی صحیح صورتحال سے آگاہ کرائیں گے۔
سبھی جانتے ہیں پورے ملک میں اس وقت وقف بورڈوں کی تحویل میں 9/لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔ ان میں سات لاکھ 80/ہزار جائیدادیں ہیں جس کی قیمت دولاکھ کروڑ سے زائد ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملک میں ریلوے اور مسلح افواج کے بعد سب سے یادہ اراضی وقف بورڈوں کے پاس ہی ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اوقاف کی جائیدادوں کو تہس نہس کرنے کا کام سب سے زیادہ خودمسلمانوں نے ہی انجام دیا ہے۔ ناجائز قبضوں کے معاملے میں وہ سب سے آگے ہیں۔جہاں ایک طرف جنوبی ہند میں اوقافی جائیدادوں کی حالت قدرے اطمینا ن بخش ہے تو وہیں شمالی ہندوستان میں باڑ ہی کھیت کو کھانے کا کام کررہی ہے۔بیشتر وقف بورڈوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کروڑوں اربوں کی جائیدادوں کا نگراں ہونے کے باوجود ان کے پاس اپنے ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں بھی نہیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان وقف ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کو بھی درست کریں اور حکومت کو اس بات کا موقع ہرگزنہ دیں کہ وہ ہماری کمزوریوں اور بے راہ روی کا فائدہ اٹھاکر اوقاف پر قبضہ کرلے۔