اٹھارہویں لوک سبھا کاافتتاحی اجلاس ختم ہوچکا ہے۔ اس اجلاس میں حسب روایت نئے ارکان کی حلف برداری کے ساتھ صدرجمہوریہ کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک منظور ہوئی۔ اس مختصر اجلاس میں تمام پارٹیوں کے لیڈران نے اظہارخیال کیا۔یوں تو سبھی اپوزیشن رہنماؤں کی تقریریں زوردار تھیں، لیکن ان میں پہلی بار اپوزیشن لیڈربنے راہل گاندھی کی تقریر کو پورے ملک کی توجہ حاصل ہوئی۔انھوں نے کچھ اس انداز میں حکمراں بی جے پی لیڈروں پر نشانہ سادھا کہ وہ بغلیں جھانکتے ہوئے نظر آئے۔پارلیمنٹ میں عام طورپر حکمراں جماعت کا جلوہ ہوتا ہے، لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ یہاں اپوزیشن کا جلوہ دیکھنے کو ملا۔ اپوزیشن لیڈر کے طورپرراہل گاندھی نے اپنی پہلی ہی تقریر سے سماں باندھ دیا۔ان کی دہاڑ سے ایوان کے دروبام لرز رہے تھے اور حکمراں طبقے کے لوگوں کے چہروں پرہوائیاں اڑرہی تھیں۔انھوں نے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کو کئی امور پر کٹہرے میں کھڑا کیا اور سب سے کاری ضرب اس ہندوتوا پر لگائی جو اس حکومت کا اوڑھنا بچھونا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اسپیکر نے ان کی تقریر کے بیشتر حصوں کو ریکارڈ سے حذف کردیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس وقت وہ بول رہے تھے تو پورا ملک انھیں سن رہا تھااور وہ ان کی باتیں عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہورہی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریر پر حکمراں جماعت میں خاصی کھلبلی مچی اور ان کی باتوں کو بچکانہ کہہ کر نظرانداز کرنے کی ناکام کوشش بھی کئی گئی۔
راہل کی تقریر پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی ممبر نشی کانت دوبے نے کہا کہ’’آئین کسی مذہب پر حملے کی اجازت نہیں دیتا، لہٰذا اپوزیشن لیڈر کو معافی مانگنی چاہئے۔‘‘اسپیکر اوم برلا نے بھی کہا کہ”اپوزیشن لیڈر تحمل سے بات کریں اور کسی مذہب میں مداخلت نہ کریں۔“حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جو انتخابی مہم کے دوران دئیے گئے وزیراعظم کے ان بیانات پر خاموشی اختیار کئے رہے جس میں انھوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی پوری انتخابی مہم مسلمانوں پر مرکوز رہی اور انھوں نے ایسی باتیں کہیں جو ان سے پہلے کسی وزیراعظم نے نہیں کہی تھیں، لیکن کسی کو اس بات کا خیال نہیں آیاکہ وزیراعظم سب کے ساتھ یکساں انصاف کرنے کا حلف اٹھاکر ایک مذہب کے ماننے والوں کو مسلسلنشانہ بنارہے ہیں۔ لیکن جب راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں حکمراں طبقے پرالزام عائد کیا کہ”یہ لوگ ہندو نہیں ہیں کیونکہ یہ چوبیس گھنٹے تشدد اورنفرت کی بات کرتے ہیں۔ مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کو نشانہ بناتے ہیں“ تو ان کے اس بیان پر حکمراں طبقہ میں کہرام مچ گیا اور خود وزیراعظم نریندر مودی نے کھڑے ہوکر اعتراض درج کرایا کہ ’’پورے ہندو سماج کوتشددپسند کہنا درست نہیں ہے۔“وزیرداخلہ امت شاہ نے بھی کہا کہ ”راہل کو معافی مانگنی چاہئے۔‘‘اس پر راہل گاندھی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ”نریندر مودی یا بی جے پی پورا ہندو سماج نہیں ہے۔ آرایس ایس ہندو سماج نہیں ہے۔ یہ ٹھیکہ بی جے پی کا نہیں ہے۔ ہندو کبھی تشدد نہیں کرسکتا۔ کبھی نفرت یا ڈر نہیں پھیلاسکتا۔“
اس وضاحت کے باوجود بی جے پی اور سنگھ پریوار نے پورے ملک میں راہل گاندھی کو ہندو مخالف قرار دے کر ان کے خلاف مہم چھیڑ دی ہے۔ ان کے پتلے نذرآتش کئے جارہے ہیں اور انھیں ہندوؤں کا دشمن قرار دیا جارہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ راہل کی تقریر کے اگلے روز جب وزیراعظم اپنی صفائی پیش کرنے کھڑے ہوئے تو انھوں نے راہل گاندھی کی باتوں کو بچکانہ قراردیتے ہوئے سوامی وویکا نند کے ایک ایسے قول کا حوالہ دیا جو راہل کی باتوں کی ہی تصدیق کرتا ہے۔مودی نے کہا کہ131سال پہلے سوامی وویکا نند نے شکاگو میں کہا تھا کہ ”مجھے فخر ہے کہ میں اس مذہب سے آتا ہوں جس نے پوری دنیا کو تحمل سکھایا ہے۔راہل گاندھی نے بھی اپنی تقریر میں یہی کہا تھا کہ’’ہندومذہب تحمل اور برداشت سکھاتا ہے، لیکن بی جے پی کے لوگ نفرت اور تشدد کی آبیاری کرتے ہیں۔‘‘وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی دوگھنٹے کی جوابی تقریر میں گھسی پٹی باتیں دوہرائیں۔ انھوں نے کہا کہ’’ہندو برداشت والا ہے۔ یہ گمبھیر بات ہے کہ ہندوؤں پر جھوٹا الزام لگانے کی سازش چل رہی ہے۔اب ہندو سماج کو سوچنا پڑے گاکہ یہ بے عزتی کوئی ’سنیوگ‘ہے یا کسی بڑے ’پریوگ‘ کی تیاری ہے۔“یہ وہی باتیں ہیں جو وزیراعظم نریندر مودی اکثر اپنی تقریروں میں دہراتے ہیں۔ درحقیقت وزیراعظم کے پاس راہل گاندھی کی مدلل باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا، اسی لیے انھوں نے ان کا جواب دینے کی بجائے ان پر ذاتی حملے کئے۔
راہل گاندھی نے بطور اپوزیشن لیڈر ایوان میں جو کچھ کہا ہے وہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ گزشتہ دس سال کا عرصہ ملک میں ایسا گزرا ہے جب پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ ایوان کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ وہاں اپوزیشن کی کوئی آواز نہیں سنی جارہی تھی۔ پارلیمنٹ میں جو کوئی حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرتا اسے باہر کا راستہ دکھادیا جاتا۔ ایوان کی تاریخ میں کبھی اتنی بڑی تعداد میں ممبران کو بے دخل نہیں کیا گیا کہ پورا ایوان اپوزیشن فری ہوگیا۔ یہ بھی پہلا موقع تھا کہ لوک سبھا میں کوئی اپوزیشن لیڈر ہی نہیں تھا اور بی جے پی کو من مانی کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ بھی اپوزیشن کو نہیں دیا گیا تھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ”گزشتہ دس سال کے دوران ہندوستان کے دستور اور ہندوستان کے نظریہ پر مسلسل حملہ کیا گیا، لیکن اپوزیشن اور ملک کے عوام نے آئین کو بچایا۔“ انھوں نے کہا کہ’’ایودھیا کے لوگوں نے بی جے پی کو شکست دے کر ایک واضح پیغام دیا۔“ راہل گاندھی کی تقریر کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ انھوں نے تمام مذہبی پیشواؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تعلیمات سے انھوں نے بے خوفی اور صداقت سیکھی ہے۔انھوں نے حضرت محمد، شیوجی، گرونانک، یسو ع مسیح،گوتم بدھ اور مہاویر جی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تعلیمات سے انھوں نے بے خوفی اور سچائی سیکھی۔ راہل گاندھی نے بطورخاص قرآن مجید کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کہا گیا ہے ”خوف نہ کھاؤ، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں سن اور دیکھ رہا ہوں۔“
راہل گاندھی کی اس تقریر سے ان مسلمانوں کو بھی حوصلہ ملا ہے جو یہ محسوس کررہے تھے کہ اپوزیشن جماعتیں مودی کے خوف سے مسلمانوں کا نام لینے سے ڈررہی ہیں، لیکن راہل گاندھی کی تقریر نے اس شکایت کا ہی ازالہ نہیں کیا بلکہ اس ہندوتو اکے خلاف بھی محاذ کھولا ہے جو سیاسی استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ یوں تو راہل گاندھی گزشتہ ایک برس سے ملک میں نفرت کی سیاست کے خلاف زوردار مہم چلارہے ہیں۔ انھوں نے’بھارت جوڑو یاترا‘کے دوران ملک کے عوام کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ یہ ملک نفرت کے راستے پرآگے نہیں بڑھ سکتا۔انھوں نے محبت کی جو دکان کھولی اس کا خاطر خواہ اثرہوا اور ان کے خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ انڈیا اتحاد کو اتنی نشستیں نہیں مل سکیں کہ وہ حکومت تشکیل دے سکتا، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اپوزیشن کی طاقت حکمراں طبقے کے لگ بھگ برابر ہوگئی اور اب ملک میں اپوزیشن کی آواز پوری توجہ کے ساتھ سنی جارہی ہے۔جمہوریت اسی کو کہتے ہیں۔امید ہے کہ آئندہ پانچ سال کے دوران مضبوط اپوزیشن کی وجہ سے ملک میں ان جمہوری قدروں کو مضبوطی فراہم ہوگی جنھیں ملیامیٹ کرنے کی منظم سازشیں رچی گئی ہیں۔