عام انتخابات کی مہم کے دوران بی جے پی کے تمام ہی لیڈروں کا نشانہ مسلمان ہیں۔ بی جے پی کانگریس کے کاندھے پر بندوق رکھ کرمسلمانوں پرجوفائرنگ کر رہی ہے، اس کا واحد مقصد کانگریس کو ’مسلمانوں کی پارٹی‘ ثابت کرنا ہے۔بی جے پی کا کہنا ہے کہ کانگریس نے آزادی کے بعد مسلمانوں کی منہ بھرائیکے سوا کچھ نہیں کیا۔ وہ ملک کے وسائل کو لوٹ کر مسلمانوں کی جھولی میں ڈالتی رہی اور ان کے نازنخرے اٹھاتی رہی۔ وزیراعظم نریندرمودی سے لے کر بی جے پی کے عام لیڈروں تک سبھی لوگ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو مشتعل کرنے کاکام کررہے ہیں۔وزیراعظم اپنی تقریباً ہر انتخابی تقریر میں کہہ رہے کہ ”کانگریس پسماندہ ذاتوں کو حاصل ریزرویشن چھین کر مسلمانوں دینا چاہتی ہے اور میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گا۔“ انھوں نے یہاں تک کہ ڈالاہے کہ ”وائناڑ میں ایک معاہدہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن میں حصہ دیا جائے اور بدلے میں ہمیں وائناڑ سیٹ دی جائے۔“سبھی جانتے ہیں کہ جنوبی ہند کی بعض ریاستوں میں کافی پہلے سے مسلمانوں کو پانچ فیصد ریزرویشن حاصل ہے جو ان کی پسماندگی کی بنیاد پر دیا گیا ہے، لیکن وزیراعظم نریندر مودی اسے ایس سی،ایس ٹی اور اوبی سی کا ریزرویشن قراردے کر مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی میں مصروف ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک قطعی جھوٹا پروپیگنڈہ ہے جس کا مقصد انتخابی ماحول کوپراگندہ کرنا اور ہاتھ سے چھوٹتے ہو ئے ہندو ووٹ بینک پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔
’منہ بھرائی‘ ایک ایسا لفظ ہے جسے بی جے پی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے ایک اوزارکے طورپر استعمال کرتی رہی ہے۔کثرت استعمال کے سبب یہ لفظ اب اتنا عام ہوگیا ہے کہ جب بھی کہیں مسلمانوں کا نام آتا ہے تو لوگوں کا دھیان سیدھا ان کے ’تشٹی کرن‘ کی طرف چلا جاتا ہے۔اس کے ذریعہ یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کانگریس اس ملک کے وسائل کا بڑا حصہ مسلمانوں میں تقسیم کرکے ہندو برادران وطن کی حق تلفی کرتی رہی ہے۔مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے دوسرا پروپیگنڈہ یہ کیا جاتا ہے کہ وہ چار شادیاں کرتے ہیں اور درجنوں بچے پیداکرتے ہیں۔ اسی پس منظر میں وزیراعظم نے پچھلے دنوں یہ بیان دیا کہ”کانگریس ملک کے وسائل کو ’زیادہ بچے پیدا کرنے والوں اور دراندازوں‘ کے درمیان تقسیم کردے گی۔“
قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے جوش خطابت میں مسلمانوں کو ’گھس پیٹھیا‘ اور ’زیادہ بچے پیدا کرنے والا‘ قرار دے کر ان کے خلاف ماحول سازی کی جو اضافی کوشش کی ہے، اس کے خلاف نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی قانون حرکت میں آیا ہے۔ حالانکہ یہ بیان اتنا اشتعال انگیز اور قابل اعتراض ہے کہ اس کے خلاف قانونی مشنری اور الیکشن کمیشن کو فوری حرکت میں آجانا چاہیے تھا، لیکن یہاں معاملہ چونکہ وزیراعظم کا ہے اس لیے سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔یہ ایک ایسے وزیراعظم کا بیان ہے جو ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ حاصل کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور خود کو مسلمانوں کا سب سے بڑا ہمدرد بھی کہتے ہیں، لیکن جب الیکشن کے میدان میں انھیں اپنی حالت پتلی ہونے کا احساس ہوتا ہے تو مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کرکے فرقہ وارانہ صف بندی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور اس میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ انھیں اپنے عہدے کے وقار کا بھی پاس ولحاظ نہیں رہتا۔
اب آئیے ایک نظر کانگریس پر لگائے جانے والے’مسلمانوں کی منہ بھرائی‘کے الزام پر ڈالتے ہیں۔کانگریس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام عائد کرنے والی بی جے پی نے گزشتہ دس سال کے دوران ہندو برادران وطن کی منہ بھرائی کے لیے جو کچھ کیا ہے، اس کی ایک طویل داستان ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو بی جے پی سرکار نے اس دوران ہندوؤں کی منہ بھرائی کے سوا کچھ نہیں کیا اور سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے۔ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر میں سرکاری مشنری اور خود وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی شرکت ہندوستان کے سیکولر جمہوری آئین کے قطعی منافی تھی، لیکن اس پر بائیں بازو کی جماعتوں کو چھوڑ کر کسی نے کوئی اعتراض درج نہیں کرایا۔شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے کہا کہ وہ اب کی بار اقتدار میں آتے ہی لفظ ’سیکولرازم‘ کو آئین کے دیباچہ سے خارج کردے گی، کیونکہ یہ لفظ بعد کوکانگریس نے آئین میں شامل کیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے جوبھی کام کئے ہیں ان کی براہ راست ضرب مسلمانوں پر پڑی ہے۔ معاملہ تین طلاق کے خلاف قانون سازی کا ہو یا دفعہ 370کے خاتمہ کا یا پھر ملک میں مسلم پرسنل لاء کو ختم کرکے ملک کے مختلف صوبوں میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا۔ یہ تمام وہ موضوعات ہیں جو شدت پسندعناصر کو جذباتی تسکینپہنچاتے ہیں اور یہی بی جے پی کا مقصد بھی ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ کانگریس مسلمانوں کی منہ بھرائی کرتی ہے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ بی جے پی ہندوؤں کی منہ بھرائی کے علاوہ اور کیا کرتی ہے۔ منہ بھرائی کرنا اگر جمہوریت میں ایک جرم ہے تو اس میں سب سے زیادہ بی جے پی شریک ہے جو ہرکام ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرتی ہے۔
کانگریس نے اب تک مسلمانوں کی منہ بھرائی کے نام پر جو کچھ کیا ہے اس کا حاصل سچر کمیٹی کی وہ رپورٹ ہے جو سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ایماء پر ان ہی کے دور اقتدار میں منظرعام پر آئی تھی اور جس نے اعداد وشمار کی بنیاد پر یہ ثابت کیا تھا مسلمان اس ملک کی سب سے پسماندہ اقلیت ہیں۔ سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی میدانوں میں ان کی پسماندگی دلتوں سے بھیزیادہ ہے۔وہ پسماندگی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جہاں سے انھیں نکالنا بے حد ضروری ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر منموہن سنگھ سرکار نے اقلیتی امور کی وزارت قایم کی تھی جسے مودی سرکارنے عضو معطل بناکر چھوڑ دیا ہے۔
وزیراعظم کا الزام ہے کہ کانگریس پارٹی اس ملک کی جائیداد کو ہندوؤں سے چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کردے گی۔ یہاں تک کہ ماؤں اور بہنوں کے منگل سوتر بھی نہیں بچیں گے۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئیے یہ دیکھیں کہ اس وقت ملک میں جائیداد کی تقسیم کی صورتحال کیا ہے۔اس سلسلہ میں ہم ایک رپورٹ کا حوالہ دینا چاہیں گے جو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف دلت اسٹڈیز نے2020میں تیار کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق جائیداد کی ملکیت درج فہرست قبائل، درج فہرست ذاتوں اورمسلمانوں میں سب سے کم ہے۔اس سلسلے میں انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے پاس ملک کی مجموعی دولت کا41/ فیصد ہے جبکہ مسلمانوں کے پاس محض آٹھ فیصد ہے۔رپورٹ میں ہندو اعلیٰ ذاتوں کے اثاثوں کی مالیت کا مجموعی تخمینہ ایک لاکھ 46/ کروڑ 394 /ارب روپے ہے، جبکہ مسلمانوں کے پاس ایک اندازے کے مطابق 28/ہزار 707 /ارب روپے کے اثاثے تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسلم گھرانوں کی اوسط دولت 9 /اعشاریہ95 /لاکھ روپے ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک کی اصل دولت اور اثاثے اعلیٰ ذات کے لوگوں کے پاس ہیں، جو ہندوستان کی مجموعی آبادی میں پانچ فیصد کے آس پاس ہیں۔بی جے پی دراصل ان ہی کی نمائندگی کرتی ہے اور ان ہی کے مفادات کا تحفظ بھی کرتی ہے۔ اسی لیے وہ پسماندہ ذاتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے۔