Jadid Khabar

مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

Thumb

کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے، لیکن اس کہاوت میں اب الیکشن بھی شامل ہوگیا ہے۔ عام انتخابات کے دومرحلوں کی پولنگ مکمل ہوچکی ہے۔ دونوں ہی مرحلوں میں پولنگ کا فیصد کم رہا اور یہ بی جے پی کے لیے خاصی تشویش کی بات ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ اس بار بی جے پی کے حق میں کوئی لہر نہیں ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے اس نے جو ہتھکنڈے اپنائے تھے وہ پوری طرح فیل ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اپنے آزمودہ ایجنڈے پرواپس آگئی ہے۔ فرقہ وارانہ منافرت کاوہی آزمودہ ایجنڈا، جس کے ذریعہ اس نے تمام سیاسی قوت حاصل کی ہے۔ اس بار بی جے پی براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے۔ اس کا اصل نشانہ کانگریس ہے یا مسلمان؟ یہ ابھی واضح نہیں ہوسکا، لیکن اتنا واضح ہے کہ وہ کانگریس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کررہی ہے،جس سے ملک کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ اندیشہ اس بات کا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے رفقاء کی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے نتیجے میں کہیں کوئی فساد برپا نہ ہوجائے۔
 پچھلے ایک ہفتہ کے دوران وزیراعظم نریندر مودی، بی جے پی صدر جے پی نڈا، وزیرداخلہ امت شاہ اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بیانوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کا لب لباب یہ ہیکہ کانگریس اگر اقتدار میں آگئی تو وہ ملک کی ساری دولت ہندوؤں سے چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ ملک میں شرعی نظام قایم ہوجائے گا اور پسماندہ ذاتوں کو ملنے والا ریزرویشن ان سے چھین کر مسلمانوں کو دے دیا جائے گا۔وزیراعظم نے گزشتہ جمعہ کو بہار کے ارریہ ضلع میں اپنی انتخابی ریلی کے دوران کہا کہ”کانگریس کرناٹک کی طرح اوبی سی کوٹے کے تحت مسلمانوں کو ریزرویشن دینا چاہتی ہے، وہ بہار میں بھی ایسا ہی کرے گی۔ مستقبل میں وہ ایس سی ایس ٹی کو ملنے والے ریزرویشن میں کٹوتی کرکے وہ بھی مسلمانوں کو دے سکتی ہے۔“حالانکہ کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدا رامیا نے وزیراعظم کے اس بیان کو جھوٹ کا پلندہ قراردیتے ہوئے انھیں چیلنج بھی کیا ہے لیکن وزیراعظم مسلمانوں کے خلاف بیان بازی میں سبقت لے جانا چاہتے ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک اشتعال انگیز اور مسلم مخالف بیان دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف ہزاروں شکایتیں درج کرائی جاچکی ہیں، لیکن وہاں بھی کوئی ٹھوس کارروائی عمل میں نہیں آرہی ہے۔ الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کو نوٹس جاری کرنے کی بجائے ان کی پارٹی بی جے پی کو ایک ایسا نوٹس جاری کیا ہے جس میں وزیراعظم کا نام تک نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی لیڈرکی اشتعال انگیزی کے خلاف درج کرائی گئی شکایتوں کی پوچھ گچھ اس کی پارٹی سے کی جارہی ہے اور اس میں بھی اس کا نام درج نہیں ہے۔الیکشن کمیشن کا موجودہ کردار کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔یہ وہی الیکشن کمیشن ہے جس نے کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ بیان بازی کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وزیراعظم نریندرمودی اس وقت پوری طرح الیکشن کے موڈ میں ہیں۔وہ جب اس حالت میں ہوتے ہیں تو انھیں وزیراعظم کے عہدے کاوقار ملحوظ نہیں رہتا۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ بقول خود وہ ایک سو چالیس کروڑ ہندوستانیوں کے وزیراعظم ہیں اور ان ہی کے قول کے مطابق یہ تمام ہندوستانی ان کا اپناکنبہ ہیں۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کسی نے ان کیذاتی خاندان کے بارے میں سوال اٹھایا تھا تو انھوں نے خم ٹھونک کرکہا تھا کہ تمام ہندوستانی ان کے خاندان کا حصہ ہیں، جن کی تعداد ایک سو چالیس کروڑ ہے۔اگر ان کا یہ بیان صحیح ہے تو پھر انھوں نے اپنے ہی خاندان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں  کو گھس پیٹھیا کیوں قرار دیا ہے؟سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان مسلمانوں کو اپنے خاندان کا حصہ نہیں سمجھتے جن کے خلاف انھوں نے گزشتہ اتوار کو راجستھانمیں آخری درجے کی اشتعال انگیزی کی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس کانگریسکی آڑ میں نشانہ بنارہے ہیں جو اس وقت مسلمانوں سے کوسوں دور ہے اوروہ ان کا نام لینے سے بھی ڈررہی ہے۔یہ کانگریس پارٹی کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اس کا اقلیتی ڈپارٹمنٹ بالکل ٹھپ پڑا ہوا ہے اور وہاں کوئی سرگرمی نہیں ہے۔ ورنہ اس سے پہلے عام انتخابات میں اس ڈپارٹمنٹ میں خاص سرگرمی دیکھی جاتی تھی۔ اتنا ہی نہیں کانگریس نے اپنے تمام مسلم چہروں کو گھر بٹھا دیا ہے اور ان سے کوئی کام نہیں لیا جارہا ہے۔ ایسا اس خوف سے کیا گیا ہے کہ کہیں بی جے پی کانگریس پر مسلم پرستی کا الزام لگاکر ہندوؤں کو ورغلانے کا کام نہ کرے، لیکن کانگریس کی بدبختی یہ ہے کہ مسلمانوں سے دوری بنانے کے باوجود بی جے پی اس پر مسلسل مسلمانوں کی ’منہ بھرائی‘کے الزامات لگارہی ہے۔ایک ایسی منہ بھرائی جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بی جے پی نے حکمت عملی کے تحت اس وقت مسلمانوں کو ملک میں بیگانہ بنادیا ہے۔ ایسا بیگانہ کہ کوئی بھی سیکولر پارٹی ان کانام لینے سے ڈرتی ہے۔کانگریس ہی نہیں سماجوادی پارٹی،آرجے ڈی، این سی پی، اورترنمول کانگریس سب کا یہی حال ہے۔
وزیراعظم مودی نے حالیہ الیکشن میں سب سے پہلے کانگریس کو اس کے انتخابی منشور کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے نشانہ بنایا تھا کہ اس پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔حالانکہ اس منشور میں مسلمانوں کا کہیں کوئی ذکر تک نہیں ہے۔بار بار کے مطالبوں کے باوجود وزیراعظم کانگریس کے منشور میں مسلم لیگ کی چھاپ کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔اب انھوں نے اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا ہے کہ”کانگریس اس ملک کے ہندوؤں سے سب کچھ چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی۔ یہاں تک کہ عورتوں کا منگل سوتر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔“ انھوں نے گزشتہ اتوار کو راجستھان کے بانسواڑہ میں کانگریس کا نام لے کر کہا کہ ”پہلے جب ان کی سرکار تھی تو انھوں نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ اس کا مطلب یہجائیداد اکٹھا کرکے کس کو بانٹیں گے؟ جن کے زیادہ بچے ہیں، ان کو بانٹیں گے، گھس پیٹھیوں کو بانٹیں گے۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی کا پیسہ گھس پیٹھیوں کو بانٹ دیا جائے گا۔ آپ کو منظور ہے؟“اتنا ہی نہیں وزیراعظم مودی نے اس کے دوروز بعد جے پور کی انتخابی ریلی میں دلتوں اور آدیواسیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے ہوئے کہا کہ’’کانگریس دلتوں اور آدی واسیوں کا ریزرویشن ختم کرکے مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے۔“
وزیراعظم کے اس بیان کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ انتہائی قابل اعتراض اور لائق مذمت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم نے اس ملک کے آئین پر ہاتھ رکھ کر یہ حلف اٹھایا ہے کہ وہ ملک کے سبھی باشندوں کے ساتھ انصاف کریں گے اور ان کے ساتھ مذہب، ذات پات اور عقیدے کی بنیاد پر کوئی بھیدبھاؤ نہیں کریں گے۔“لیکن جب ہم اس کی روشنی میں ان کے بیان کا جائزہ لیتے ہیں تو بڑی مایوس کن صورتحال ابھرتی۔ اس بیان میں انھوں نے دستور کی ہی دھجیاں نہیں اڑائی ہیں بلکہ حکمرانی کے اصولوں کو بھی پاش پاش کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اس بیان پر پورے ملک میں شدید ردعمل ہوا ہے اور سبھی سیکولر اور انصاف پسند عناصر نے اس کی پرزور مذمت کی ہے۔ مگر اس معاملے میں الیکشن کمیشن کی سردمہری ناقابل فہم ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انتخابی عمل  شروع ہونے سے پہلے الیکشن کمیشن نے واضح طورپر کہا تھا کہ کسی بھی قسم کی مذہبی منافرت برداشت نہیں کی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، لیکن اب جبکہ وزیراعظم کے انتہائی اشتعال انگیز بیان کے خلافہزاروں شکایتیں درج ہوچکی ہیں توالیکشن کمیشن نے راست کارروائی کرنے کی بجائے بی جے پی کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ الیکشن کمیشن وزیراعظم کے خلاف کارروائی جوکھم نہیں اٹھانا چاہتا۔