Jadid Khabar

مشرقِ وسطیٰ بارود کے ڈھیر پر

Thumb

مشرق وسطیٰ اس وقت آتش فشاں کے دہانے پر ہے۔ دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملہ نے صورتحال کو انتہائی سنگین بنادیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسی تباہ جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جو پورے مشرق وسطیٰ کو جلاکر خاک کردے گی۔اس بات کا اندیشہ اسی وقت سے ظاہر کیا جارہا تھا جب اسرائیل نے غزہ پر جارحیتکا آغاز کیا تھا۔غزہ پرجاری اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگیمسلسل بڑھ رہی تھی، لیکن شام میں اسرائیل کے ہاتھوں ایرانی سفارتکاروں کی ہلاکت نے اس کو اپنی انتہاؤں تک پہنچادیا ہے اورنوبت دونوں ملکوں کے درمیان ایک تباہ کن جنگ کے اندیشوں تک جاپہنچی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور ہندوستان سمیت کئی ملکوں نے اپنے شہریوں کو ایران اور اسرائیل کے سفر سے باز رہنے کی ایڈوایزری جاری کی ہے، کیونکہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے۔ 
 گزشتہ سال 7/اکتوبر کو جب حماس نے اسرائیل پر ڈرون حملوں کے ذریعہ اس کے سیکڑوں شہریوں کو ہلاک اور یرغمال بنایا تھا، تبھی اسرائیل نے کہا تھا کہ حماس کی کارروائی کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے، کیونکہ وہی اسے ہرطرح کی مدد فراہم کرتاہے۔ حالانکہ ایران نے اسرائیل کے اس الزام کی شدت کے ساتھ تردید کی تھی، لیکن غزہ میں پچھلے چھ ماہ کے دوران جاری اسرائیلی درندگی اور بربریت کے دوران ایسے کئی مواقع آئے جن میں اسرائیل اور ایران کے درمیان تکرار بڑھی، لیکن کسی کو بھی اس بات کا اندیشہ نہیں تھا کہ یہ تکرار ایک خطرناک جنگ کے امکانات میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ حالات اس وقت بگڑے جب گزشتہ یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر حملہ ہوا جس میں ۲۱/افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سات ارکان، چار شامی باشندے اور ایک حزب اللہ ملیشیا کا ممبر شامل تھا۔ ایران نے اس حملہ کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ایران کی دھمکی کے بعد اسرائیل نے کہا کہ اگر حملہ ہوا تو ہم بھی ایران کونشانہ بنائیں گے۔اسی کے بعد مشرق وسطیٰ میں نئی کشیدگیکا آغاز ہوا۔یہی وجہ ہے کہ ممکنہ ایرانی ردعمل کے پیش نظر خطے کے ممالک ہائی الرٹ پر ہیں۔
امریکی مالیاتی خبررساں ایجنسی بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایران، حزب اللہ یا حوثی کسی بھی وقت اسرائیل پر بڑا حملہ کرسکتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیاہے کہ ایران، حزب اللہ یا حوثیوں کے حملوں میں اسرائیلی فوجی یا حکومتی اہداف نشانہ بن سکتے ہیں اور بڑی تعداد میں ڈرون بھی اسرائیل پر حملے میں حصہ لے سکتے ہیں۔ لندن کے ایک عربی میڈیا ادارے کی اطلاع کے مطابق دمشق میں ایرانی سفاتخانے پر اسرائیلی حملہ کے بعد اسرائیل چنددنوں میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بناسکتا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتہ دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی جارحیت کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ ہم اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیں گے۔“
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کی انتہاؤں پر مزید تبصرہ سے پہلے آئیے غزہ کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا اصل سبب ہے۔ کیونکہ ظالم وجابر اسرائیل نے عید کے روز بھی غزہ میں اپنی وحشت اور درندگی کا کھیل جاری رکھا۔ ان حملوں میں نہ صرف 100سے زائد بے گناہ فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا بلکہ اس دوران حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے تین بیٹوں اور چار پوتوں کو بھی بڑی سفاکیت سے قتل کردیا گیا۔اطلاعات کے مطابق اسماعیل ہانیہ کے بیٹوں اور پوتوں کو نشانہ بنانے والا یہ وحشیانہ حملہ غزہ کے شمال مغرب میں الشاطی رفیوجی کیمپ پرہوا۔ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسماعیل ہانیہ نے اپنے مقتول بچوں کی شناخت حازم، عامر اور محمد کے نام سے کی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ”اسرائیلی حملہ میں جاں بحق ہوئے ان کے بچے اب تک جنگ کے دوران ہلاک ہوئے ان کے درجنوں رشتہ داروں میں شامل ہیں۔“
 واضح رہے کہ اسماعیل ہانیہ جس وقت الجزیرہ کے نامہ نگار سے گفتگو کررہے تھے تو ان کے چہرے پر نہ تو غم کے کوئی آثار تھے اور نہ ہی خوف کی کوئی لکیر، کیونکہ ان کے نزدیک شہادت پانا ہی سب سے بڑی معراج ہے۔انھوں نے دوحہ میں کہا کہ”اپنے تین بیٹوں اور چارپوتوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے وہ اور ان کا خاندان ایک بار پھر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو شہید کرکے فلسطینی تحریک آزادی کو کچل دے گا، مگر دشمن کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ یہ شہادتیں مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے ہمارے سفر کو اور بھی تیز کررہی ہیں اور منزل کو قریب تر کررہی ہیں۔“ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”اپنے تین بیٹوں اور چار پوتوں کی شہادت ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ ان کا خون یروشلم اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کی راہ میں دی جانے والی قربانیاں ہیں۔“
اسماعیل ہانیہ کے اس بیان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ غزہ کی جنگ کا ہدف کتنا وسیع ہے اور اس میں شہید ہونے والوں کا رتبہ کتنا بلند ہے۔ یہی وجہ ہے گزشتہ چھ ماہ سے غزہ میں جاری اسرائیلی درندگی اور بربریت نے فلسطینی عوام کے حوصلے نہیں توڑے ہیں۔ اس دوران 33ہزار سے زیادہ ہلاکتوں کے باوجود غزہ کے عوام نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔ ہزاروں اسرائیلی موت کے خوف سے اپنا گھر بار چھوڑ کر فرار ہوچکے ہیں، لیکن غزہ سے کسی نے بھی فرار ہونے کی کوشش نہیں کی۔ اسی لافانی جذبے نے اسرائیل کے ہوش اڑادئیے ہیں اور وہ غزہ کی جنگ میں اپنا سب کچھ گنوا رہا ہے اور الٹے سیدھے ہاتھ ماررہاہے۔ جنگ کا ایک پرانا اصول ہے کہ یہ ایک محاذ پر ہی کامیاب ہوتی ہے اور جوکوئی جنگ کے کئی محاذ کھول لیتا ہے ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ دمشق میں ایرانی سفارتخانہ پر حملہ دراصل اسرائیل کی بھیانک غلطی ہے جس نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو انتہائی سنگین بنادیا ہے۔
اس دوران ایران اور اسرائیل میں ممکنہجنگ کے بھیانک خطرے کو دیکھتے ہوئے دنیا کی بڑی طاقتیں بھی چوکنا ہوگئی ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے چین کے وزیرخارجہ اور دوسرے ملکوں کے لیڈروں سے گفتگو کی ہے۔ انھوں نے ان لیڈران سے کہا ہے کہ ایران کو اسرائیل پر حملہ سے روکنے کے لیے اپنے اثرات کا استعمال کریں۔ اس دوران امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان میتھو ملر نے چین، ترکی،سعودی عرب اور یوروپی ملکوں کے وزرائے خارجہ سے بات کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشیدگی کا بڑھنا کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔ سبھی ملکوں کو ایران سے بات کرنی چاہئے۔اس کے ساتھ ہی امریکی وزیرخارجہ نے اسرائیلی وزیردفاع کو فون ملاکر کہا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ادھر اسرائیل کے وزیردفاع یو گیلونٹ نے جمعہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”ایران سے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے ہم کندھاسے کندھا ملاکر کھڑے ہیں۔“دراصل امریکہ کی یہی دوغلی پالیسی ہے جس نے مشرق وسطیٰ کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں حالات کی ابتری کی مطلب عرب ملکوں کا اس پرمکمل انحصار ہے اور یہیں سے اس کی ہتھیاروں کی منڈی میں بلیک مارکیٹنگ شروع ہوتی ہے۔