Jadid Khabar

راجیہ سبھا میں مسلم نمائندگی کا سوال

Thumb

راجیہ سبھا کی 56 نشستوں کے لیے انتخابی عمل آئندہ 27فروری کو مکمل ہوگا۔ان میں سے بیشتر امیدواروں کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کا امکان ہے۔ سابق کانگریس صدر سونیا گاندھی راجستھان سے بلا مقابلہ منتخب ہوچکی ہیں۔ وہ پہلی راجیہ سبھا کی ممبر بنی ہیں۔جب بھی کوئی چناؤ ہوتا ہے تو مسلمانوں کی توجہ کا محورمسلم نمائندگی کا سوال ہوتا ہے۔لوک سبھا کی طرح راجیہ سبھا چناؤ میں بھی مسلمانوں کی نظریں اس بات پر مرکوزہیں کہ ایوان بالا میں مسلم نمائندگی کیا ہوگی۔جن صوبوں میں چناؤہونے کے آثار ہیں ان میں اترپردیش، کرناٹک اور ہماچل پردیش کے نام شامل ہیں۔سب سے بڑا پیچ اترپردیش میں پھنسا ہوا ہے جہاں گیارہ امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہوگا۔ اس میں تین سیٹیں سماجوادی پارٹی اور آٹھ سیٹیں بی جے پی کو ملیں گی۔ لیکن بی جے پی کی طرف سے ایک اضافی امیدوار میدان میں اتارنے سے سماجوادی پارٹی کے تیسرے امیدوار پر خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں۔اگر آپ مسلم نقطہ نظر سے دیکھیں تو ان 56 سیٹوں میں صرف ایک مسلمان کرناٹک سے کانگریس کے ٹکٹ پرراجیہ سبھا پہنچیں گے۔ وہ ہیں ناصر حسین جو اس وقت بھی راجیہ سبھا کے رکن ہیں۔باقی55 سیٹیں غیر مسلموں کو ملیں گی۔ 
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے لیے مسلمان شجر ممنوعہ بنتے جارہے ہیں۔وہ پارٹیاں بھی جن کا اصل ووٹ بینک مسلمان ہیں، ان کے ساتھ سوتیلا سلوک کررہی ہیں۔ اس کی ایک مثال اترپردیش کی سماجوادی پارٹی ہے، جس کے سینئر لیڈر سلیم اقبال شیروانی نے اسی سوال پرجنرل سیکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔انھوں نے پارٹی قیادت پر راجیہ سبھا چناؤ میں مسلمانوں کو نظرانداز کرنے کا الزام لگایا۔ واضح رہے کہ راجیہ سبھا کے لیے سماجوادی پارٹی نے جو تین امیدوار میدان میں اتارے ہیں ان میں کوئی مسلمان نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ خود سلیم شیروانی راجیہ سبھا میں جانے کے خواہش مند تھے، لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔ 
سلیم شیروانی اس سے قبل پانچ مرتبہ بدایوں پارلیمانی حلقہ سے لوک سبھا کے ممبر رہ چکے ہیں۔انھوں نے ایک بار کانگریس اور چاربار سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پرکامیابی حاصل کی۔ بہرحال ہمیں ان سے ہمدردی ہے، مگر ایک سوال یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگ مسلم نمائندگی کے نام پر پارلیمنٹ میں پہنچ کر کیا کرتے ہیں؟ہم نے دیکھا ہے کہ عام طور پریہ لوگ وہاں مسلم مسائل پر لب کشائی نہیں کرتے، کیونکہ جو پارٹیاں انھیں وہاں بھیجتی ہیں وہ ان ہی کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں تاکہ دوبارہ نامزدگی کا موقع مل سکے۔یہ درحقیقت مسلمانوں کے نہیں بلکہ اپنی اپنی پارٹیوں کے نمائندے ہوتے ہیں اوران ہی کی پالیسی سے بندھے ہوتے ہیں، اس لیے انھیں مسلم نمائندہ قراردینا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب تک جتنے بھی مسلمان سیکولر پارٹیوں کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں چن کر پہنچے ہیں، انھوں نے کسی بھی مسلم مسئلہ پر اس وقت ہی لب کشائی کی ہے جب ان کی پارٹیوں نے اس کی اجازت دی ہے۔ 
پھر بھی ہمیں سلیم اقبال شیروانی سے ہمدردی ہے کہ ان کی حق تلفی ہوئی، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے سماجوادی پارٹی سے مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنے کی توقع ہی کیوں قایم کی تھی۔ ملائم سنگھ یادو کے بعد سماجوادی پارٹی جس رخ پر چل رہی ہے، اس میں مسلمان اس کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہیں۔وہ اس وقت اسی”نرم ہندتو“ کی پالیسی پر گامزن ہے جس پر چل کر کانگریس کا حشرخراب ہوا ہے۔ملائم سنگھ نے بڑی محنت سے ایم وائی (مسلم۔یادو)کا جو اتحاد قائم کیا تھا وہ نہ جانے کب کا ٹوٹ چکا ہے۔کیونکہ یادو برادری بی جے پی کے ساتھ چلی گئی ہے اور اب سماجوادی پارٹی کے کھاتے میں صرف مسلمان ہیں، جنھیں وہ اپنی سیاسی جاگیر تو سمجھتی ہے لیکن ان کے لیے کچھ کرنا نہیں چاہتی۔  ہزار خرابیوں کے باوجودملائم سنگھ میں تنہا خوبی ایسی تھی جس کی وجہ سے مسلمان ان کی طرف کھنچے چلے جاتے تھے۔ وہ نڈر ہوکرمسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرتے تھے۔ بھلے ہی وہ عملی طورپر مسلمانوں کے لیے کچھ نہ کرتے ہوں، لیکن جہاں بھی مسلمانوں کا کوئی معاملہ آتا تھا تو وہ فوراً بیان دیتے تھے، جس کی وجہ سے جذباتی مسلمان انھیں اپنی آواز سمجھتے تھے، لیکن ان کی موت کے بعد سماجوادی پارٹی نے اپنی روش تبدیل کرلی ہے۔ ان کے بیٹے اکھلیش یادو مسلمانوں کے کسی مسئلہ پر لب کشائی نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اپنی پارٹی کے مسلم لیڈروں کا بھی دفاع نہیں کرتے۔ اس کی ایک مثال ملائم سنگھ یادو کے پرانے ساتھی محمداعظم خاں ہیں،جنھیں ان کی بیوی اور بیٹے سمیت جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ ان پر سیکڑوں مقدمات قائم ہیں اور ان کی قائم کی ہوئی جوہر یونیورسٹی کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوششیں ہورہی ہیں، لیکن اکھلیش یادو خاموش ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ وہ آج تک ان سے ملنے جیل بھی نہیں گئے۔اگر وہ چاہتے تو ان کی پارٹی اترپردیش میں اعظم خاں کے ساتھ ہورہے ظلم وزیادتی کے خلاف تحریک چھیڑ سکتی تھی مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اکھلیش یادو کی سردمہری کا حال یہ ہے کہ سماجوادی کی 110سیٹیں ہونے کے باوجوداسمبلی میں اپوزیشن کی کوئی آواز ہی نہیں ہے۔اترپردیش ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں بی جے پی کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جو چاہتی ہے کرگزرتی ہے۔
گزشتہ پارلیمانی چناؤ میں سماجوادی پارٹی کو جو پانچ نشستیں حاصل ہوئی تھیں وہ بھی مسلمانوں کی بدولت تھیں، ورنہ یادو حلقوں میں بی جے پی نے ہی پرچم لہرایا تھا۔ خود ملائم سنگھ کے گڑھ کہے جانے والے اٹاوہ میں بی جے پی جیتی تھی۔جبکہ مسلم اکثریتی حلقوں میں جن مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی، ان میں،ڈاکٹر شفیق الرحمن برق (سنبھل)ڈاکٹر ایس ٹی حسن (مرادآباد)محمداعظم خاں (رامپور)شامل تھے۔ بعد کو جب اعظم خاں کو سزا ہوئی تو ان کی رکنیت جاتی رہی اور وہاں ضمنی چناؤ میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی۔ خود اکھلیش یادونے اعظم گڑھ حلقہ سے مسلمانوں کی حمایت سے کامیابی حاصل کی تھی۔البتہ مین پوری میں ملائم سنگھ کا جادوبرقرار تھا۔ ان کی موت کے بعد یہ سیٹ ان کی بہو ڈمپل یادو نے جیتی۔2014کا چناؤ کانگریس انڈیا اتحاد کے تحت سماجوادی پارٹی کے ساتھ مل کر لڑنے کی خواہاں ہے۔انھوں نے ریاست کی ۰۸ سیٹوں میں کانگریس کو صرف۷۱ سیٹیں دی ہیں جبکہ کانگریس دوردجن سیٹوں کی خواہاں تھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ موجودہ فرقہ وارانہ ماحول کے خلاف راہل گاندھی جو یاترا نکال رہے ہیں، اس کا مسلمانوں پر خاص اثر ہے۔ امید یہ کی جاتی ہے کہ اس بار مسلم ووٹ سماجوادی سے زیادہ کانگریس کی جھولی میں گرے گا۔سماجوادی پارٹی نے جو تین امیدوارراجیہ سبھا کے لیے میدان میں اتارے ہیں، ان میں ایک نام سماجوادی پارٹی کے سینئررام جی لال سمن کا ہے جو لوک سبھا کے رکن رہ چکے ہیں۔ وہ دلت لیڈر ہیں مگر ایوان میں مسلمانوں کی آواز بے خوف ہوکر اٹھاتے رہے ہیں۔ راجیہ سبھا میں ان کی نامزدگی ایک اچھا قدم ہے۔مگر لگاتار تیسری بار سماجوادی پارٹی سے اداکارہ جیہ بچن کا نامزد ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ہماری آج تک سمجھ میں نہیں آسکا کہ وہ کس مرض کی دوا ہیں کہ انھیں باربار موقع دیا جاتا ہے۔ حالانکہ امرسنگھ کے سحر سے سماجوادی پارٹی نہ جانے کب سے آزاد ہوچکی ہے۔