Jadid Khabar

بلقیس نے انصاف کی جنگ جیت لی

Thumb

 بلقیس بانو کیس کے سزا یافتہ مجرموں کو دوبارہ گرفتار کرنے کے سپریم کورٹ کے احکامات سے انصاف کا سربلند ہوا ہے۔ یہ فیصلہ ظلم وانصافی کے اس دور میں ان لوگوں کے لیے امید کی کرن ہے جو حالات کے جبر کا شکار ہیں اور جنھیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔بلقیس بانو اجتماعی آبروریزی اورقتل کیس کے ان گیارہ مجرموں کو مہاراشٹر کی ایک عدالت نے عمرقید کی سزا سنائی تھی، حالانکہ یہ سزا جرم کی نوعیت اور سنگینی کے اعتبارسے کم تھی۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ انھیں سزائے موت دی جانی چاہئے تھی، مگر گجرات سرکار نے انھیں عمرقید بھی پوری نہیں کرنے دی اور قبل از وقت ہی معافی دے کر رہا کردیا۔دلیل یہ دی گئی تھی کہ ان مجرموں کے کردار میں سدھار پیدا ہوا ہے۔ مگر ان کی رہائی سے بلقیس بانو کو جس اذیت سے گزرنا پڑا تھا، اس کا اندازہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دئیے گئے بلقیس کے بیان سے ہوتا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ”آج میرے سینے سے پہاڑ جیسا پتھر ہٹ گیا ہے۔“درحقیقت گجرات کی بی جے پی سرکار نے ان بدترین مجرموں کو انصاف کے تمام تقاضوں کو پس پشت ڈال کر رہا کیا تھا۔ اس کیس کی تحقیقات سی بی آئی نے کی تھی۔جب اس معاملے میں سی بی آئی کی رائے لی گئی تو اس نے کہا تھاکہ اس معاملے میں رعایت دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس کے بعد داہوڑ ضلع کے ایس پی اور ڈی ایم نے بھی سی بی آئی کے موقف کی تائید کی، لیکن اس دوران 11جولائی 2022 کو امت شاہ کی سربراہی والی مرکزی وزارت داخلہ نے ایک خط جاری کیا،جس میں کہا گیا کہ”مرکزی حکومت ضابطہ فوجداری کی دفعہ 435 کے تحت ان گیارہ قیدیوں کی رہائی کو منظوری دیتی ہے۔“ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ان مجرموں کی رہائی کے پیچھے سیاسی اسباب پوشیدہ تھے۔  
 گجرات سرکار نے ان بدترین مجرموں کی رہائی کے لیے دن بھی ایسا منتخب کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔انھیں عین15/اگست کے دن اس وقت رہا کیا گیا جب پورا ملک ’آزادی کا امرت مہوتسو‘منارہا تھا۔جب یہ گیارہ مجرمین رہا ہوکر جیل سے باہر آئے تو وشوہندو پریشد کے دفتر میں پھول مالائیں پہناکر ان کا ایساشاہانہ استقبال کیا گیا، گویا وہ ملک کی آزادی کے ہیرو ہوں۔اتنا ہی نہیں ان کی آرتی اتاری گئی، پاؤں چھوئے گئے اور انھیں پھول مالائیں پہنائی گئیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت کا فیصلہ سننے کے بعدیہ مجرمین اپنے اپنے گھروں سے غائب ہیں۔ان کو رہا ہوئے17مہینے بیت چکے تھے۔نومبر2022میں ان کی رہائی کے خلاف بلقیس بانونے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور اسی وقت یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ عدالت کی طرف سے کوئی سخت فیصلہ آئے گا۔اس کیس کی پیروی جن چار بہادر خواتین نے کی ان کے نام سابق ایم پی مہوا موئترا،کمیونسٹ رہنما سبھاشنی علی،سابق وائس چانسلرپروفیسرروپ ریکھا ورمااور صحافی ریوتی لال ہیں۔
مجرمین کی دوبارہ گرفتاری کی ذمہ داری اسی گجرات حکومت کے کاندھوں پرہے جس نے انھیں رہا کیا تھا۔سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا گجرات حکومت ان کی دوبارہ گرفتاری میں دلچسپی لے گی؟سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہوسکتا ہے کہ وہ گجرات میں کہیں چھپ گئے ہوں یا کسی اور ریاست میں جاکر روپوش ہوگئے ہوں یا پھر ملک سے ہی فرار ہوچکے ہوں۔“انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”گجرات پولیس تو حکومت گجرات کے احکامات پر ہی عمل کرے گی، اور ان سزا یافتگان کو ڈھونڈنکالنے میں سردمہری سے کام لے گی، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ حکومت گجرات سپریم کورٹ کے احکامات سے ہی نظرپھیرلے اور مجرمین کو تلاش نہ کرپانے یا حکم پر عمل نہ کرپانے کے سو بہانے تلاش کرے۔“
 بلقیس بانو اجتماعی آبرویزی کے یہ مجرم آزاد ہندوستان کی بدترین نسل کشی کے قصوروار ہیں۔ انھوں نے نہ صرف پانچ ماہ کی حاملہ بلقیس بانو کی اجتماعی آبرویزی کی بلکہ اس کے سات رشتے داروں کو بھی بے رحمی سے قتل کیا تھا۔جرم کی نوعیت اور بربریت کے اعتبار سے یہ کیس اپنی مثال آپ تھا۔گجرات نسل کشی کے دیگر مقدمات کے ساتھ اس کی سماعت بھی مہاراشٹر میں ہوئی اورممبئی کی ایک عدالت نے انھیں عمر قید کی سزا سنائی۔ اس سزا کو ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا، لیکن گجرات سرکار نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان تمام مجرموں کو سزا پوری ہونے سے پہلے ہی رہا کردیا۔ گجرات سرکار کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسے خوب کھری کھوٹی سنائی اورکہا کہ ”گجرات سرکار نے نہ صرف اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا بلکہ خواتین کے وقار کو بھی چوٹ پہنچائی۔“
بلقیس بانو گجرات کی نسل کشی کا ایک ایسا کردار ہے، جس کی مظلومیت، بے کسی اور لاچاری پر دنیا ڈھیروں آنسو بہا چکی ہے۔ اس کی مظلومیت کی کہانی پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔کون سا ایسا ظلم تھا جو بلقیس بانو اور اس کے گھروالوں پرنہیں ڈھایاگیا۔ درندگی اور بربریت کا ایسا کون سا پہلو تھا جو اس کے مجرموں نے نظر انداز کیا ہو۔ ہندوستان میں جب بھی فرقہ وارانہ نسل کشی کی تاریخ رقم ہوگی تو اس میں بلقیس بانو ایک جلی عنوان بنے گی۔بلقیس بانو کی کہانی یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ اس ملک میں مذہبی جنون میں مبتلا وحشی درندوں کے اندر انسانی خون پینے کی پیاس کتنی گہری ہے۔ یوں تو آزادی کے بعد سے ہی اس ملک میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ ہے اور مسلمانوں نے اپنے اوپر ایک سے بڑھ کر ایک ظلم جھیلا ہے،لیکن 2002کی گجرات نسل کشی ایک ایسا عنوان ہے جس کی ٹیس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔
اس نسل کشی میں شرکت کا ایک الزام چونکہ سرکاری مشنری پر بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی انتہائی سنگین وارداتوں کی سماعت گجرات سے باہر مہاراشٹر میں کی گئی اور وہاں کئی قصورواروں کو سزائیں بھی ملیں۔ اس معاملے میں گجرات سرکار کارول ان مجرموں کو بچانے کا تھا جو اس قتل وغارتگری میں گردن تک ڈوبے ہوئے تھے۔بدترین مجرموں کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ظلم وستم کی تاریخ رقم کرنے والے ان کے چہیتے تھے۔اسی لیے قدم قدم پر ان کا دفاع کیا گیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گجرات سرکار نے جن بنیادوں پر بلقیس بانو کے مجرموں کو قبل ازوقت رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ان میں سب سے مضبوط بنیاد ان کے ’سدھرنے‘کی تھی۔گویا صوبائی سرکار کے نزدیک اب ان کا کردار ایسا نفیس ہوگیا تھا، جس کا انھیں انعام ملنا چاہئے تھا۔سپریم کورٹ نے ان مجرموں کو دوبارہ پابند سلاسل کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”عورت چاہے کسی بھی طبقہ یا مذہب کی کیوں نہ ہو، اس کی عزت ووقار کا خیال کرنا ضروری ہے۔ عدالت نے سوال کیا ہے کہ کیا عورت کے خلاف گھناؤنا جرم انجام دینے والوں کو چھوٹ دی جانی چاہئے؟“بلقیس بانو کیس کے سزایافتہ مجرموں کی رہا ئی کا گجرات سرکار کا فیصلہ رد کرنے کے دوررس نتائج برآمدہوں گے۔ ملک میں صوبائی حکومتوں کے ذریعہ مختلف سزا یافتہ مجرموں کو رعایت دینے کا معاملہ موضوع بحث ہے۔ موجودہ حکومت اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی دریا دل ثابت ہوئی ہے۔ ان سرکاروں کے کئی چہیتے مجرم جو مختلف جیلوں میں سزائیں کاٹ رہے ہیں، انھیں باربار پیرول پر رہا کیا جارہا ہے۔ ان میں آسارام باپو اور گرمیت رام رحیم جیسے مجرم بھی شامل ہیں، جو عورتوں کے خلاف سنگین جرائم کی سزا بھگت رہے ہیں، لیکن ہریانہ کی بی جے پی سرکار قریبی رشتوں کے سبب باربار انھیں پیرول پر رہا کرتی ہے۔دوسری طرف سی اے اے قانون کے خلاف مہم چلانے والے کئی سماجی جہدکاروں کو ضمانت دینے کی مسلسل مخالفت کی جارہی ہے، جبکہ ان پر اب تک کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکا ہے۔