Jadid Khabar

غزہ کی جنگ کو بھڑکانے میں امریکہ کا کردار

Thumb

غزہ کی جنگ کو 70 دن پورے ہوچکے ہیں۔جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، اسرائیلی فوج خان یونس میں شدید بمباری کررہی ہے۔مزاحمتی فورس کے جوابی حملے میں اسرائیلی فوج کو بھی جنوبی غزہ میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔حماس کے ترجمان ابوعبیدہ نے 72گھنٹوں کے اندر 72سے زائد فوجی گاڑیوں کو تباہ اور36سے زائد اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔جنوبی غزہ میں صیہونی فوج کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ وہ یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ ہم ایک بہت مشکل جنگ لڑرہے ہیں۔ اپنی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لیے اسرائیلی فوج مسلسل بمباری کا سہارا لے رہی ہے، جس سے درجنوں فلسطینی روزجام شہادت نوش کررہے ہیں، لیکن انھوں نے اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔ ادھر امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم کو خبردار کیا ہے غزہ کے شہریوں پر بلا امتیاز بمباری سے اسرائیل اپنی عالمی حمایت کھورہا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ”اسرائیل کو امریکہ اور یوروپی یونین کی حمایت حاصل ہے، لیکن غزہ میں بچوں،خواتین اور نہتے شہریوں پر مسلسل بمباری سے وہ بین الاقوامی حمایت کھورہا ہے۔“ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر ہم جو بائیڈن کے اس بیان کو کس عینک سے دیکھیں، کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جو فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کو نہ صرف سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کررہا ہے بلکہ جب سے اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی ہے، وہ مستقل اس کی پشت پر کھڑا ہوا ہے۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ امریکہ کی اندھی حمایت کے سبب ہی آج اسرائیل دندناتا پھر رہا ہے۔ اگر امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پاس ہونے والی قراردادوں کو ویٹو نہیں کرتا تو آج اسرائیل دنیا میں الگ تھلگ پڑگیا ہوتا۔آئیے پہلے اسرائیل کو حاصل امریکہ حمایت کے پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں۔
امریکی راجدھانی واشنگٹن ڈی سی میں یوں تو سیکڑوں میوزیم ہیں، لیکن ایک میوزیم ایسا بھی ہے جسے دیکھ کر آپ یہودی قوم کے لیے آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ’ہولو کا سٹ میوزیم‘ کے نام سے موسوم یہ میوزیم سخت حفاظتی بندوبست میں ہے اور یہاں داخل ہونے والوں کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے۔  کئی برس قبل امریکی سفر کے دوران جب میں نے اس میوزیم کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کی تعمیر وتشکیل اس انداز کی ہے کہ آپ اس میں تجسس کے ساتھ داخل ہوں گے اور روتے ہوئے باہر آئیں گے۔ آپ کے یہ آنسو ان’مظلوم‘ یہودیوں کے لیے ہوں گے، جو آج کی تاریخ میں دنیا کی بدترین ظالم و جابر قوت ہیں اور جنھوں نے فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنارکھا ہے۔اس میوزیم کی تعمیر وتشکیل سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے دور میں ہوئی تھی اور اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جب لاکھوں یوروپی یہودیوں کا قتل عام کیا تھا تو صورتحال کیا تھی اور یہودی کن کن مصیبتوں سے گزرے تھے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم کے دوران لاکھوں یہودیوں کو گیس چیمبر میں بند کرکے موت کے گھاٹ اتاردیاتھا، لیکن آج اسی قوم کے ظالم وجابر حکمراں غزہ میں جو کچھ کررہے ہیں، وہ اس سے زیادہ بدتر ہے، جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔ یہودیوں کے قتل عام پر آج 78 برس بعد بھی دنیا آنسو بہاتی ہے، لیکن آج نہتے اور بے قصور فلسطینیوں کے قتل عام پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو تاریخ کی اس بدترین نسل کشی کو روکنے کاحوصلہرکھتا ہو۔ وہ عرب ممالک بھی نہیں، جنھوں نے اپنے تاجوں کی حفاظت کے عوض اپنا سب کچھ اس امریکہ کے پاس گروی رکھا ہوا ہے، جو اس جنگ میں اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔ ایک اقوام متحدہ ہے جس کا کام کاغذی قراردادیں پاس کرکے مظلوموں کو یہ فریب دینا ہے کہ ہم بھی کچھ کررہے ہیں۔اس بار بھی اقوام متحدہ نے یہی کیا ہے۔ وہ متعدد قرادادیں پاس کرنے کے باوجود اس جنگ کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ کیونکہ امریکہ مسلسل جنگ کے شعلے بھڑکارہا ہے اور اس خطرناک آگ کو ہوا دے رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے گزشتہ ہفتہ سلامتیکونسل میں امارات کی طرف سے پیش کی گئی جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کردیا تھااور اسرائیل کے لیے مزید اسلحہ کی سپلائی کو ہری جھنڈی دکھادی تھی۔اس کارروائی کے بعد اسرائیل نے غزہ میں اپنی کارروائی مزید تیز کردی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک طرف تو امریکہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کررہا ہے اور دوسری طرف امریکی صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ ’غزہ پر مسلسل بمباری سے عالمی سطح پر اسرائیل اپنی حمایت کھوتا جارہا ہے۔‘ بدترین منافقت شاید اسی کوکہتے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے درست ہی کہا ہے کہ ”فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جنگی جرائم میں امریکہ برابر کا شریک ہے۔“دنیا جانتی ہے کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیاں بسانے اور اسرائیل کو ہرقسم کی مدد پہچانے میں امریکہ ہمیشہ پیش پیش رہا ہے اور اس نے اپنے اختیارات سے آگے بڑھ کر اسرائیل کی مدد کی ہے۔ جب بھی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں اسرائیل کو اس کے سنگین جرائم کی وجہ سے یکا وتنہا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو امریکہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہوگیا ہے۔ امریکی حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اسرائیل غزہ میں جہنم تخلیق کررہا ہے۔دنیا کو امن کا سبق پڑھانے والے امریکہ نے حالیہ جنگ کو ہوا دینے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔غزہ جنگ کو تقویت دینے کے لیے امریکہ نے کانگریس کی منظوری کے بغیر ٹینک کے14ہزار گولے اسرائیل بھیج دئیے ہیں۔ امریکی حکومت کے مطابق یہ کام امریکہ کی قومی سلامتی کے مفادات کے تحت کیا گیا ہے۔
غزہ کیجنگ اب تیسرے ماہ میں داخل ہوچکی ہے۔اسرائیلی بربریت اور درندگی کے نتیجے میں اب تک تقریباً19ہزارفلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔تقریباً پچاس ہزار زخمی ہیں۔23/لاکھ کی آبادی والے غزہ میں زندگی جہنم بنادی گئی ہے۔ تقریباً آدھی آبادی قابل رحم حالت میں زندگی بسر کررہی ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں۔شمالی غزہ کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد اسرائیلی فوج خان یونس میں آگ برسارہی ہے۔زمینی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیلی فوجی خان یونس کے وسط تک پہنچ گئے ہیں۔اسرائیلی فوج نے کئی دن پہلے فلسطینیوں سے غزہ کے اضلاع جبالیہ اور شجائیہ کو خالی کرنے کو کہا تھا، لیکن اس کے باوجود وہاں اب بھی بڑی تعداد میں لوگ آباد ہیں اور ان علاقوں میں قابض اسرائیلی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔شمالی علاقہ بیت لاحیہ میں گھر تباہ ہونے کے بعد جبالیہ میں پناہ لینے والے ۷بچوں کے59 سالہ والد نے کہا کہ’اس لڑائی، فائرنگ اور بمباری کے باوجود ہم کہیں نہیں جائیں گے۔“انھوں نے کہا کہ ”ہم یاتو شہیدوں کی طرح مارے جائیں گے یا پھر وہ یہاں ہمیں اکیلے چھوڑ کرچلے جائیں گے۔“یہ اپنی سرزمین کی خاطر مرنے کی وہ آرزو ہے جسے اسرائیل فنا نہیں کرسکتا۔
قابل ذکر ہے کہ غزہ میں زمینی جنگ کے دوران اسرائیلی فوجیوں کو لوہے کے چنے چبانے پڑرہے ہیں۔ وہ شدید الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہیں، یہاں تک کہ بوکھلاہٹ میں وہ خود اپنے ہی سپاہیوں کو قتل کررہے ہیں۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق غزہ میں صیہونی فورسز نے اپنے ہی بیس فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ہے۔الجزیرہ کی اطلاعات کے مطابق غزہ میں حماس کے ساتھ لڑتے ہوئے 20اسرائیلی فوجی ’فرینڈلی فائر‘ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اسرائیلی فوج نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری اعداد وشمار کے مطابق غزہ پٹی میں زمینی کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے 105اسرائیلی فوجیوں میں سے20دوستانہ فائرنگ اور اسی طرح کے دیگر واقعات میں مارے گئے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ کچھ فوجیوں کو اس لیے گولیاں ماری گئیں کیونکہ ان پر حماس کے جنگجو ہونے کا شبہ تھا۔قابل ذکر یہ ہے کہ ۷/اکتوبر سے حماس کے خلاف جاری جنگ میں اب تک420اسرائیلی فوجی ہلاک اور دوہزار سے زیادہ معذور ہوچکے ہیں۔
زخمی فوجیوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار ہے، جن میں دوہزار ہمیشہ کے لیے معذور ہوچکے ہیں۔اسرائیل کی وزارت دفاع کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ ”ہم نے ایسی صورتحال کا کبھی سامنا نہیں کیا، زخمیوں میں 85 فیصد سے زائد فوجیوں کی حالت سنگین ہے،جس کی وجہ سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹنے پڑے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 7فیصد اسرائیلی فوجی ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔دوسری طرف اسرائیلی خبررساں ادارے کی طرف سے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ میں مصروف فوجی اپنی بینائی سے محروم ہورہے ہیں۔ سیکڑوں اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں میں غزہ جنگ کے دوران شدید چوٹیں آئی ہیں، جن میں سے بعض کی ایک یادونوں آنکھیں ضائع ہوگئی ہیں۔