معصوم مرادآبادی
غزہ میں انسانیت دم توڑرہی ہے۔ کوئی مقام ایسا نہیں ہے جہاں اسرائیلی بارود نہ برس رہیہو۔رہائشی بلڈنگیں، اسپتال، اسکول، قبرستان غرض یہ کہ ہر جگہ آگ ہی آگ ہے۔عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان، بیمار، معذور سبھی پر بم برس رہے ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں ان بچوں کی ہورہی ہیں، جو جنگ کے مفہوم سے بھی ناآشنا ہیں۔ ایسے ہی چند بچوں نے گزشتہ منگل کو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ناکام کوشش کی۔چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچوں نے دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے غزہ کے الشفاء اسپتال میں پریس کانفرنس کا سہارا لیا۔دس سالہ بچے نے کہا کہ ”اکتوبر کی ساتویں تاریخ سے ہمیں نسل کشی کا سامنا ہے۔ ہمارے سروں پر بم برسائے جارہے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو یہ معلوم ہو کہ ہم زندہ تو ہیں، لیکن انھوں نے زندگیوں کو مار ڈالا ہے۔وہ دنیا سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ مزاحمتی جنگجوؤں کو نشانہ بنارہے ہیں، لیکن ہم بچے ایک سے زیادہ مرتبہ ان کی لائی ہوئی موت سے بچ چکے ہیں۔انھوں نے غزہ کے لوگوں کو قتل کیا۔ ہمارے خوابوں اور ہمارے مستقبل کو مسمار کردیا۔“
یہ غزہ سے اٹھنے والی کوئی پہلی فریاد نہیں ہے۔ اسرائیل پرحماس کے میزائل حملوں کے بعدگزشتہ سات اکتوبرسے غزہ پر مسلسل بم برسائے جارہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جانے والا غزہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ عام انسان ہی نہیں بلکہ طبی کارکن، پناہ گزین،بیمار اور زخموں سے کراہ رہے انسان بھی بموں کی مار جھیل رہے ہیں۔ اس وحشت و درندگی کی زدمیں آکر اب تک جو گیارہ ہزار بے قصور فلسطینی شہید ہوئے ہیں، ان میں پانچ ہزار بچے ہیں، جنھیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ آخر کس جرم کی پاداش میں انھیں دودھ کی جگہ موت دی جارہی ہے۔ پوری دنیا کے عام انسان اس صورتحال سے شدید پریشانی اور ہیجان میں مبتلا ہیں، لیکن اسرائیل اور اس کے حامیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔ یہ مغربی ملکوں کی انسانیت دشمنی ہی تو ہے کہ وہ اسرائیل کی فوجی اور دفاعی طاقت میں اضافہ کررہے ہیں اور غزہ کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونی سیف کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ”اسرائیلی حملوں کے باعث ہونے والے جانی ومالی نقصان کے اثرات بچوں کے ذہنوں پر تاحیات رہیں گے۔انھوں نے کہا کہ ”غزہ میں حماس اسرائیل تنازعہ کی قیمت بچے چکا رہے ہیں۔غزہ میں تقریباً پانچ ہزار بچے ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ سات ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں مارے جانے والے بچوں کی تعداد صرف اعداد نہیں ہیں، یہ بچے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں سے متاثر بچوں کی ذہنی حالت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ان بچوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے والدین اور بہن بھائیوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے۔ان بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے گھراور علاقے لمحوں میں ملیا میٹ ہوگئے ہیں۔“
غزہ اس وقت پوری دنیا کا امتحان لے رہا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں انسان بستے ہیں، وہ غزہ کی صورتحال سے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ لوگ ان حالات کو بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ ایسی سیکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں جن میں دم توڑتی ہوئی انسانیت کے دل دہلادینے والے مناظر قید ہیں، لیکن مغربی دنیا کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ اسرائیل کی حمایت میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ غزہ کوملیا میٹ کرنے کی دھمکیوں پر بھی منہ نہیں کھول رہے ہیں۔عرب اور اسلامی ملکوں کی تنظیموں کو بے نتیجہ میٹنگوں سے ہی فرصت نہیں ہے۔ تاریخ انھیں معاف نہیں کریں گی۔ان میں کچھ مسلم ملک ایسے بھی ہیں جن کا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ ملیشیا بھی ان میں شامل ہے، جس کے وزیراعظم انور ابراہیم کا کہنا ہے کہ”اسرائیل کی طرف سے گرائے گئے بموں سے ہونے والا نقصان دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیمامیں ہونے والے نقصانا ت سے زیادہ ہے۔اس کی تصدیق کرتے ہوئے انسانی حقوق کی ایک یورپین تنظیم نے کہا ہے کہ غزہ پر گرائے گئے بم ہیروشیما دھماکے کی طاقت سے ڈیڑھ گنا زیادہ تھے۔انھوں نے کہا کہ 7اکتوبر سے 2نومبر کے درمیان غزہ پر 25ٹن بم گرائے گئے جبکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما پر 15ٹن بم گرائے گئے۔ واضح رہے کہ اب سے 75 سال پہلے ایک امریکی جنگی طیارے نے ہیروشیما پر ایک خطرناک جوہری بم گرایا تھا جس نے پورے شہر کو صفحہ ہستی سے مٹادیا تھا اور اس میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ دنیا میں جنگوں سے ہونے والی سب سے خوفناک تباہی تھی جس کے بعد دنیا نے جنگ سے توبہ کرلی تھی، لیکن المیہ یہ ہے کہ تب سے اب تک دنیا میں اتنے جوہری ہتھیار جمع ہوچکے ہیں کہ انھیں استعمال میں لانے کے لیے ایسی مزید کئی دنیاؤں کی ضرورت ہے۔
ایٹم کی تباہی کے اثرات کا آپ صرف اندازہ ہی لگاسکتے ہیں۔لیکن اس کے باوجودپچھلے ہفتہ اسرائیل کے ایک وزیرنے ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ”موجودہ جنگ کے دوران غزہ پٹی پر ایٹم بم گرانا بھی متبادلوں میں ہوسکتا ہے۔“ حالانکہ اس بیان پر تنازعہ کھڑا ہونے کے بعدمذکورہ وزیر کو کابینہ سے برطرف کردیا گیا ہے، لیکن اس سے نتن یاہوکابینہ کی بدترین انسانیت دشمنی کا سراغ ملت ضرورملتاہے۔ فلسطینی وزیر ریاض المالکی نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیوں کو بے اثر کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں۔وزیر مالکی نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹرکو ایک پیغام بھیجا ہے، جس میں اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر برائے ثقافتی ورثہ امیہائی الیاہو کی جانب سے غزہ میں جوہری بم استعمال کرنے کی دھمکی کوپوری دنیا کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔واضح رہے کہ اس بیان پر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی اور انٹر نیشنل نیوکلیر انسپکٹر س کی خاموشی پر بھی سوالیہ نشان قایم کرتیہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل ایک ایٹمی قوت ہے اور اس کے پاس 90 ایٹم بم ہیں۔
ادھر برطرف شدہ اسرائیلی وزیر کے بیان پر غزہ میں بھی شدید ردعمل دیکھنے کوملا ہے۔غزہ کے باشندوں کا کہنا ہے کہ ”ہم پر ہرروز جوہری ہتھیاروں سے بمباری کی جاتی ہے۔اسرائیل نے غزہ میں چھوڑا ہی کیا ہے۔ہم پر ایٹم بم سے بڑے تباہ کن ہتھیاروں سے بمباری کی جاتی ہے۔شمالی غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے کہا کہ ”انھوں نے ہم پر جو بم پھینکے ہیں، وہ جوہری بم سے بھی بڑے تھے۔“انھوں نے زور دے کر کہا کہ”عمارتوں اور گلیوں میں کچھ بھی نہیں بچا ہے۔تمام گلیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔“ایک اور شخص نے کہا کہ ”اسرائیل ہرروز جوہری ہتھیاروں سے بدتر بموں سے حملہ کرتا ہے۔“ایک بوڑھے آدمی نے کہا کہ”غزہ میں ہونے والی تباہی کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ یہ جنگ نہیں ہے بلکہ سب کچھ فنا کرنے والی قیامت ہے۔“واضح رہے کہ اس وقت غزہ کی حالت کسی بھی جوہری بم کے اثرات سے مختلف نہیں ہے۔غزہ کے بدحال لوگوں کا کہنا ہے کہ بمباری میں ساٹھ فیصد عمارتیں مکمل یا جزوی طورپر تباہ ہوچکی ہیں۔اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے مطابق اس کے زیادہ تر اسپتال تباہی کے دہانے پر ہیں۔اسرائیل فوج نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب اور جمعہ کی صبح القدس، الشفاء، العودہ، النصر، چلڈرن ہوم، غزہ بلڈبینک پر حملہ کرکے اپنے وحشی ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔اس کا کہنا ہے کہ حماس کے جنگجو ان اسپتالوں میں روپوش ہیں، جبکہ بمباری کے دوران اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔غزہ پر ایٹم بم گرانے کی دھمکی اسرائیل کی بزدلی کا سب سے بڑاثبوت ہے۔ شاید وہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ غزہ پر گرنے والا ایٹم بم خود اسے بھی فنا کردے گا۔
masoom.moradabadi@gmail.com