گزشتہ جمعہ کو صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے اس بل کو منظوری دے دی ہے، جس کے تحت لوک سبھا اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے 33فیصد نشستیں مخصوص ہوں گی۔اس سے پہلے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے دوران راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں یہ بل بھاری اکثریت سے پاس کیا جاچکا تھا۔حالانکہ منزل ابھی بہت دور ہے،کیونکہ اس کا نفاذ2029کے بعدنئی مردم شماری اور لوک سبھا واسمبلیوں کی نئی حدبندی کے بعدعمل میں آئے گا،لیکن اس کی بنیاد پر حکمراں بی جے پی نے خواتین کے ووٹوں پرہاتھ صاف کرنے کی تیاری ابھی سے شروع کردی ہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کو اس کا کتنا فائدہ ہوگا، مگر اس قانون میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کے اندر مسلمان اور اوبی سی خواتین کو کوئی نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ سماج کے کمزور طبقوں کی شمولیت کے بغیر کوئی قانون کتنا کارگر ہوسکتا ہے، اس کا آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی بھی خواتین ریزرویشن بل کو ایک بڑی حصولیابی قرار دے رہے ہیں۔انھوں نے حال ہی میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’آج ہمارا ملک تاریخی حصولیابیوں اور فیصلوں کا مشاہدہ کررہا ہے۔30 برسوں سے خواتین ریزرویشن کا جو معاملہ التوا میں تھا، وہ اب دونوں ایوانوں سے ریکارڈ ووٹوں سے منظورہوگیا ہے۔“وزیراعظم نریندرمودی کے بیان سے واضح ہے کہ وہ خواتین ریزرویشن بل کی منظوری سے کتنے جوش میں ہیں۔وزیراعظم ہی نہیں پوری بی جے پی خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کو نئی پارلیمنٹ کی سب سے بڑی حصولیابی قرار دے رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ پارلیمنٹ کا یہ مختصر اجلاس بی جے پی کے ایک ممبر کی بدزبانی کی وجہ سے زیادہ چرچا میں ہے، جس پر پورے ملک میں بحث ہورہی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ہی ایوانوں میں اس بل کو کسی مخالفت اور مزاحمت کے بغیر منظور کرلیا گیا ہے۔مجھے یاد ہے کہ جب کانگریس کے دور اقتدار میں یہ بل راجیہ سبھا میں پیش ہوا تھا تو وہاں بے نظیر ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی تھی۔ اس موقع پر ایک ممبر نے پانی کا گلاس توڑ کر خواتین ریزرویشن کی مخالفت میں خود کو لہولہان کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ نتیجے میں کانگریس سرکار نے اس بل سے ہاتھ کھینچ لیے تھے، لیکن اب کئی برس بعد جب یہ بل دوبارہ پیش ہوا ہے تو اس کی مخالفت میں صرف ایک آواز اٹھی ہے اور وہ ہے ایم آئی ایم کے رکن بیرسٹر اسد الدین اویسی کی، جنھوں نے اس بل میں مسلم اور اوبی سی خواتین کی شمولیت کا پرزور مطالبہ کرتے ہوئے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے، لیکن ہاؤس میں ان کی بات ان سنی کردی گئی۔
پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین ریزرویشن کیمعاملے میں حکومت کی منشا پر ڈھیروں سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ یہ پہلا قانون ہے جس کے نفاذ کی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات کے بعد مردم شماری کا عمل شروع ہوگا اور اس کے بعد اس قانون کانفاذ 2029 میں عمل میں آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب قانون کا نفاذ کرنے میں اتنی دیر ہے تو ابھی سے قانون سازی کی ضرورت کیوں آن پڑی۔ اس کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ بی جے پی خواتین ریزرویشن بل پاس کرانے کا کریڈٹ لے کر عام انتخابات میں اترنا چاہتی ہے تاکہ اسے بڑی تعداد میں خواتین کی حمایت حاصل ہو۔اس بل کے تعلق سے سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ اس میں مسلم خواتین کو ریزرویشن کیوں نہیں دیا گیا ہے۔ اس سوال کی معنویت اس لیے بھی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی خود کو مسلم خواتین کا سب سے بڑا ہمدردسمجھتے ہیں اور وہ تین طلاق مخالف قانون بنانے کا کریڈٹ لینے سے نہیں چوکتے، لیکن جب پارلیمنٹ میں مسلم خواتین کو ریزرویشن دینے کا سوال اٹھا تو انھوں نے روایتی خاموشی اختیار کرلی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف لوک سبھا میں بیرسٹر اویسی نے اس بل میں اوبی سی اور مسلم خواتین کی شمولیت کا سوال اٹھایا تو وہیں راجیہ سبھا میں سماجوادی پارٹی کی رکن جیہ بچن نے مورچہ سنبھالا۔ انھوں نے اوبی سی اور مسلم خواتین کے لیے ریزرویشن کی زبردست وکالت کرتے ہوئے کہا کہ”مسلم خواتین کو براہ راست الیکشن کے ذریعہ قانون ساز اسمبلیوں میں بھیجا جانا چاہئے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی تین طلاق پر پابندی کے ذریعہ مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے نہیں تھک رہی تھی، اس لیے اگر اس کی نیت صاف ہے تواسے مسلم خواتین کو بھی ریزرویشن دینا چاہئے۔“ انھوں نے یہ بھی کہا کہ”سماجوادی پارٹی خواتین ریزرویشن بل کے خلاف نہیں ہے، لیکن اس کا موقف ہے کہ33فیصد ریزرویشن میں اوبی سی اور مسلم خواتین کو بھی ریزرویشن دیا جائے۔“ قابل ذکر ہے کہ خواتین ریزرویشن بل میں نہ صرف مسلم خواتین کو شامل نہیں کیا گیا ہے بلکہ اوبی سی خواتین کی بھی اس میں شمولیت نہیں ہے،جبکہ اس بل میں ایس سی، اسی ٹی خواتین کو نمائندگی دی گئی ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی ہمیشہ سے ہی مایوس کن رہی ہے۔لوک سبھا میں سب سے زیادہ مسلم امیدوار1980میں منتخب ہوئے تھے، جن کی مجموعی تعداد49 تھی، جبکہ 2019 میں یہ تعداد گھٹ کر 27 رہ گئی۔ موجودہ حکومت کی ”مسلم نوازی“ تو کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔نہ صرف یہ کہ حکمراں بی جے پی کا کوئی ایک بھی مسلم ممبر دونوں ایوانوں میں نہیں ہے بلکہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مرکزی کابینہ میں بھی کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کے لیے جب بھی مسلم ریزرویشن کا سوال اٹھتا ہے تو اسے یہ کہہ کر رد کردیا جاتاہے کہ دستور میں ریزرویشن کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ سماجی پسماندگی ہے۔ لیکن یہ سوال منہ پھاڑے کھڑا ہے کہ اگر کوئی مسلمان پسماندہ ہے تو اسے محض اس لیے ریزرویشن نہیں ملے گا کہ وہ ایک مذہب کو ماننے والا ہے۔ اس کے برعکس دیگر مذاہب کے لوگوں پر اس معاملے میں کوئی پابندی نہیں ہے اور ان کے لیے ریزرویشن کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوئے ہیں۔
اگر آپ مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ وہ اس وقت اس ملک کی سب سے زیادہ پسماندہ اکائی ہیں۔ پسماندگی کے حوالے سے اب تک جتنی بھی رپورٹیں منظر آپ پر آئی ہیں، ان میں مسلمانوں کو ہی سب سے زیادہ پسماندہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ان میں سچرکمیٹی رپورٹ(2008)سب سے اہم ہے، جس کی بنیاد پر یوپی اے کے دور اقتدار میں اقلیتی امور کی مرکزی وزارت قایم کی گئی تھی۔ہمیں نہیں معلوم کہ اس وزارت کے قیام کے بعد مسلمانوں کی پسماندگی میں کس حد تک کمی واقع ہوئی ہے، کیونکہ اس کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مسلمان روزبروز پسماندگی کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں اور وہاں سے انھیں نکالنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔قانون سازاداروں میں بھی ان کی نمائندگی دن بہ دن کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مسلم آبادی کے غلبے والی بہت سی نشستوں کو ایس سی، ایس ٹی کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے،جو غالباً مسلم نمائندگی کو کم کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ جہاں تک مسلم خواتین کی نمائندگی کا سوال ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلم خواتین ملک کی آبادی کا 7 فیصد ہیں، لیکن لوک سبھا میں ان کی نمائندگی صفر اعشاریہ سات فیصد ہے۔ سترہویں لوک سبھا تک جو690 خواتین منتخب ہوئی ہیں، ان میں مسلم خواتین کی تعداد صرف 25ہے۔موجودہ لوک سبھا میں صرف دومسلم خواتین ہیں، جن کا تعلق ترنمول کانگریس سے ہے۔ان اعداد وشمار سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ لوک سبھا میں مسلم خواتینکی نمائندگی کس حد تک کم ہے۔