ہند۔ سعودی رشتوں کی ایک نئی کہانی لکھی جارہی ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔باہمی تعاون اور اشتراک کی نئی جہتیں تلاش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوطرفہ تعلقات میں جو گرمجوشی اب دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔گزشتہ ہفتہ جی 20اجلاس میں شرکت کے لیے جب سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دہلی آئے تو انھوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ باہمی تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط کئے۔ اپنے تین روزہ دورے کے اختتام پرانھوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ کی پہلی میٹنگ کی مشترکہ صدارت کی۔ سعودی ولی عہد کی جانب سے ہندوستانی معیشت کے مختلف شعبوں میں تقریباً 100/بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا ہے، جوکہ اب تک کی گئی سرمایہ کاری میں سب سے بڑا قدم ہے۔
یوں تو ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان زندگی کے مختلف شعبوں میں کئی برسوں سے اشتراک و تعاون کادور جاری ہے، لیکن حالیہ عرصے میں ان تعلقات میں جو گرمجوشی پیدا ہوئی ہے، اس میں شہزادہ محمد بن سلمان کی ذاتی کوششوں کوبڑا دخل ہے، کیونکہ وہ اپنے ملک کو تجارت وصنعت کے میدان میں نئی بلندیوں پر لے جانا چاہتے ہیں۔سعودی ولی عہد اس سے قبل 2014میں ہندوستان آئے تھے اور تب ہی سے دونوں ملکوں کے درمیان اشتراک وتعاون کی نئی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سعودی ولی عہد کے ساتھ حالیہ دورے میں 100تاجراور سعودی کابینہ کے سات وزراء بھی شامل تھے، جس سے تجارتی رشتوں کی نئی بلندیوں کا پتہ چلتا ہے۔دوطرفہ مذاکرات کے دوران ہی سعودی وزارت اطلاعات کی جانب سے نئی دہلی میں تین روزہ میڈیا اویسس پروگرام بھی منعقد ہوا، جس کا مقصد سیاحت، تفریح، ٹکنالوجی، ثقافت اور کھیل کے شعبوں میں سعودی عرب کے منصوبوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا تھا۔
سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان سفارتی رشتوں کا آغاز ملک کی آزادی کے بعد ہی ہوگیا تھا، لیکن 2006میں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی یوم جمہوریہ تقریب میں مہمان خصوصی کے طورپر شرکت اور اس موقع پر جاری ہوئے دہلی اعلامیہ نے ان رشتوں کو مضبوطی عطا کی۔بعدازاں 2014 میں وزیراعظم نریندر مودی نے ان رشتوں کو نئی جہت دی۔ سعودی عرب سے ہندوستان کے رشتے معاشی، اسٹریٹجک اور تہذیبی طورپر کئی معنوں میں اہم ہیں۔ اس کے پیچھے ہندوستان کا اپنا مفاد بھی پوشیدہ رہا ہے۔ سعودی عرب، ہندوستان کو تیل برآمد کرتاہے اور اب وہ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کررہا ہے۔ دراصل جس قسم کی سبز معیشت کی طرف دنیا پیش قدمی کررہی ہے، اس میں مستقبل میں تیل پر انحصار کم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب بنیادی اور تکنیکی میدانوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہا ہے، جو دونوں ملکوں کے لیے مفیدہے۔ سعودی عرب سے ہندوستانی شہریوں کا بھی گہرا رشتہ ہے۔ اس وقت خلیجی ملکوں میں جو 80لاکھ ہندوستانی کام کررہے ہیں، ان میں اکیلے سعودی عرب میں ہی 24لاکھ سے زیادہ برسر روزگار ہیں۔ اس کے علاوہ مقامات مقدسہ کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کا سعودی عرب سے جذباتی اور دینی رشتہ ہے۔ جہاں ایک لاکھ سے زیادہ عازمین ہرسال حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں تو وہیں عمرے کی ادائیگی کے لیے وہاں جانے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ جن ملکوں کے تجارتی روابط قایم ہیں، ان میں ہندوستان چوتھا بڑا ملک ہے۔ ہندوستان کے ساتھ سعودی عرب کے تجارتی تعلقات اس وقت سے قایم ہیں جب بحری جہازوں کے ذریعہ تجارت ہوا کرتی تھی۔سعودی عرب سیجو تجارتی قافلے ہندوستان کے جنوبی ساحل پر لنگر انداز ہوتے تھے، ان کی یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ 1955 میں پہلی بار سعودی فرمانروا شاہ سعود نے ہندوستان کا خیرسگالی دورہکیا تھا۔ اس کے بعد 1956میں وزیراعظم جواہر لال نہرو نے سعودی عرب کا سفر کیا۔نہرو کا سعودی دورہ ہند۔سعودی تعلقات میں ایک اہم سنگ میل تھا۔ اس کے بعد 1981میں سعودی وزیرخارجہ ہندوستان آئے۔ بعدازاں 1982 میں آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ ایک دہائی کے تعطل کے بعد1994میں نرسمہاراؤ کے دور حکومت میں وزیرخارجہ کی حیثیت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ سعودی عرب گئے۔ بعدازاں سعودی عرب کے ولی عہد خالد بن سلطان نے 1996 میں ہندوستان کی سرزمین پر قدم رنجہ فرمایا۔اس کے علاوہ سعودی وزیرتیل اور وزیرحج نے اسی سال سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیزکے خصوصی قاصد کے طورپر ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔اس درمیان کئی ہندوستانی وفود اور جونیئر وزراء دونوں ملکوں کا دورہ کرتے رہے، لیکن ان رشتوں میں نئی گرمجوشی 2014میں اس وقت پیدا ہوئی جب وزیراعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور وہاں انھیں سب سے بڑے اعزاز سے نوازا گیا۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نئی بلندیوں کو چھوتے رہے۔ اب جی 20-سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے سعودی ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان کی ہندوستان آمد اور وزیراعظم کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ کی پہلی میٹنگ کی مشترکہ قیادت نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
اس دورے کے اختتام کے اگلے روزہند۔سعودی سرمایہ کاری فورم کی میٹنگ کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں ہندوستان اور سعودی عرب کی 500سے زائد کمپنیوں نے شرکت کی۔ یہ دونوں ملکوں کے درمیان اس قسم کا پہلا باضابطہ سرمایہ کاری سمپوزیم تھا۔انڈیا۔سعودی سرمایہ کاری فورم 2023 کی وزارتی میٹنگ کی مشترکہ صدارت صنعت وتجارت کے مرکزی وزیر پیوش گوئل اور سعودی عرب کے وزیرمملکت برائے سرمایہ کاری خالد الفلاح نے کی۔اہم بات یہ ہے کہ اس میٹنگ میں دوطرفہ صنعت وتجارت، سرمایہ کاری اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے دونوں ملکوں میں دفاتر قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔میٹنگ میں توانائی کی دیکھ بھال، بطورخاص قابل تجدید توانائی، مہارت کی ترقی، خلائی شعبوں میں ممکنہ سرمایہ کاری کے لیے تعاون کا خاکہ بھی پیش کیا گیا۔
قبل ازیں وزیراعظم نریندر مودی نے سعودی ولی عہد کے ساتھ اپنی میٹنگ کے بعد پریس بیان میں کہا کہ ’ہندوستان اور سعودی عرب کی دوستی علاقائی اور عالمی استحکام،خوشحالی اور انسانی بہبود کے لیے اہم ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب ہندوستان کے لیے ہمارے اہم ترین اسٹریٹجک شراکت داروں میں سے ایک ہے۔دنیا کی دو سب سے بڑی اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کے طورپر ہمارا باہمی تعاون پورے خطہ کے امن واستحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ وزیراعظم مودی نے یہ بھی کہا کہ ”ہم نے مل کر ہندوستان، مغربی ایشیاء اور یوروپ کے درمیان اقتصادی راہداری کے قیام کی ایک تاریخی شروعات کی ہے۔“انھوں نے سعودی ولی عہد کی قابل اور دوراندیش قیادت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ”میں آپ کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ سعودی عرب آپ کی قیادت میں اور آپ کے وژن 2030کے ذریعہ تیزی سے معاشی اور سماجی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔“