وسطی ہندوستان کی اہم ریاست مدھیہ پردیش میں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہاں گزشتہ بیس سال سے بی جے پی اقتدار میں ہے۔ 2018کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے یہاں بی جے پی کو شکست دی تھی، لیکن ایک سال کے عرصے میں ہی یہ سرکار اس لیے گرگئی کہ گوالیار کے مہاراجہ جیوترادتیہ سندھیا نے کئی ممبران اسمبلی کے ساتھ کانگریس سے بغاوت کرکے بی جے پی کا ہاتھ تھام لیا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بیس برسوں کے طویل دور اقتدار میں بی جے پی نے مدھیہ پردیش کو ہندتوا کی لیبارٹری میں تبدیل کردیا ہے۔ کانگریس ایک بار پھر اس ریاست میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے، لیکن ریاستی کانگریس کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ اس کے لیے نرم ہندتوا کی پالیسی اختیار کررہے ہیں اور مسلسل ایسے کام کررہے ہیں، جن سے سیکولر حلقوں میں تشویس کی لہر دوڑ گئی ہے۔اپنے اسی درد کو سابق گورنر اور سینئر کانگریسی رہنما عزیزقریشی نے ایک حالیہ بیان میں اجاگر کیا ہے۔مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال سے تعلق رکھنے والے عزیزقریشی نے اپنی ریاست میں کانگریس پر’ہندو کارڈ‘کھیلنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ”ریاستی کانگریس کے دفتر میں مورتیاں بٹھانا اور ہندتوا کی بات کرنا پارٹی کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔“انھوں نے ودیشیا میں ایک جلسے کے دوران کہا کہ اگر انھیں کانگریس سے نکالنا ہے تو نکال دیا جائے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”۲۲کروڑ مسلمانوں نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔“
عزیز قریشی نے اپنے بیان میں بعض ایسی باتیں بھی کہی ہیں جن سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، اس لیے ہم نے ان کے اس بیان کا حوالہ نہیں دیا ہے، لیکن جہاں تک مدھیہ پردیش میں کانگریس لیڈر کمل ناتھ کی طرف سے مسلسل نرم ہندتوا کی راہ اختیار کرنے کی کوششوں کا سوال ہے تواس کا مشاہدہ ہم بھی کررہے ہیں، لیکن اس موضوع پر لکھنے کی ہمت اس لیے نہیں ہوئی کہ کانگریس کی اعلیٰ قیادت فی الحال جس راستے پر چل رہی ہے، اس میں اس پر تنقید کرنے کی گنجائش کم ہے۔ خاص طورپر پارٹی لیڈر راہل گاندھی نے اپنی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے ذریعہ جو پیغام عام کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔انھوں نے حال ہی میں لداخ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں اور انھیں فرقہ وارانہ سیاست کا شکار بنایا جارہا ہے۔بلاشبہ راہل گاندھی نفرت کیبازارمیں محبت کی دکان کھولنے کی جو کوششیں کررہے ہیں، وہ لائق تحسین ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ کانگریس میں ایسے لیڈران کی کمی نہیں ہے جو ’محبت کی دکان میں نقب لگانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ ان میں سر فہرست ہیں۔
مدھیہ پردیش میں بظاہر اقتدار پر بی جے پی کی گرفت مضبوط دکھائی دیتی ہے، لیکن اندر اندر عوام میں اس کی مخالفت بھی کچھ کم نہیں ہے، جس کا فائدہ کمل ناتھ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ہرسیاست داں کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی کامیابی اور اقتدار کے حصول کے لیے ہاتھ پاؤں مارے، مگر جن راستوں پر چل کر کانگریس ماضی میں زبردست خسارہ اٹھا چکی ہے، اس پر دوبارہ سے گامزن ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ سبھی جانتے ہیں کہ کانگریس کی جو درگت بنی ہے اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس نے بی جے پی کا ہندتوا کاایجنڈا چھیننے کی کوشش کی اور سیکولرازم کی پالیسی سے انحراف کیا۔یہ کانگریس ہی تھی جس نے سیکولرازم کے راستے پر چل کر آزادی حاصل کی تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد اس کے سب سے بڑے پیروکار تھے۔ حالانکہ اس وقت بھی کانگریس میں ہندتوا کے علمبرداروں کی کمی نہیں تھی، لیکن وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود غلبہ حاصل نہیں کرسکے۔
آنجہانی وزیراعظمراجیو گاندھیپر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے شاہ بانو معاملے میں پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد فرقہ پرست طاقتوں کے دباؤ میں کچھ ایسے کام کئے جن سے ان کی پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔اس کی تفصیل سینئر انگریزی صحافی نیرجا چودھری نے اپنی تازہ کتاب میں بیان کی ہے۔ سینئر کانگریسی رہنما منی شنکر ایئر نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی آپ بیتی میں یہ لکھ کر تہلکہ مچادیا ہے کہ ”پی وی نرسمہاراؤ درحقیقت بی جے پی کے پہلے وزیراعظم تھے، جنھوں نے کانگریس میں رہتے ہوئے بی جے پی کے ایجنڈے پر عمل کیا اور بابری مسجد منہدم کروائی۔
ایودھیا تحریک کے دوران جس طرح کانگریس نے بی جے پی کے ہاتھوں سے ہندو کارڈ چھیننے کی کوششیں کیں، وہ سب پر عیاں ہے۔ اسی چھینا جھپٹی میں کانگریس نے اپنے ہاتھ بھی جلالئے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں کانگریس کا نام لیوا نہیں بچا۔ دیگر ریاستوں میں بھی یہی ہوا۔لیکن اب جبکہ راہل گاندھی نے نئی توانائی اور جوش وخروش کے ساتھ بھارت کو جوڑنے کی مہم شروع کی ہے تو ان ہی کی پارٹی کے کچھ لیڈران انھیں اپنے ایجنڈے سے بھٹکانے کی کوشش کررہے ہیں۔جس کی طرف عزیزقریشی نے توجہ دلائی ہے۔سابق گورنر عزیز قریشی کا یہ درد بے جا نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی پارٹی کے حوالے سے جو باتیں کہی ہیں، انھیں مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کو ہمیشہ ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا ہے اور ان کی فلاح وبہبود کے لیے کوئی کام نہیں کیا، جس کا سب سے بڑا ثبوت خود کانگریس حکومت کی طرف سے قایم کی گئی سچر کمیٹی کی چشم کشا رپورٹ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مدھیہ پردیش اسمبلی کے گزشتہ چناؤ دوران کمل ناتھ کا ایک بیان وائرل ہوا تھا جس میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ ”مسلمانوں پر دھیان دو، وہ ہمارا ووٹ بینک ہیں۔“بی جے پی نے اس بیان کی روشنی میں کمل ناتھ کا کافی دور تک پیچھا کیا تھا، لیکن اب وہی کمل ناتھ ہندوووٹ بینک کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔
کمل ناتھ ان دنوں ایک متنازعہ باگیشور بابا کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جو کھلے عام ہندو راشٹر کی وکالت کرتاہے۔ پچھلے دنوں کمل ناتھ نے اپنے حلقہ انتخاب چھندواڑہ میں ان ہی متنازعہ بابا کی تین روزہ کتھا کا اہتمام کرایا اور ان کی قدم بوسی بھی کی۔ جب ان سے ہندوراشٹر سے متعلق بابا باگیشور کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو کمل ناتھ نے واضح طورپر کہا کہ”اس ملک میں 85 فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے تو ایسے میں ہم ہندو راشٹر ہی تو ہیں۔“قابل ذکر بات یہ ہے کہ کمل ناتھ کی طرف سے منعقد کی گئی اس کتھا کے بعد باباباگیشور نے اخبارنویسوں سے کہا کہ ”گیان واپی کوئی مسجد نہیں ہے بلکہ شیومندر ہے۔انھوں نے اس موقع پر نوح فساد کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوؤں سے بیدار ہونے کی بھی اپیل کی۔“غرض یہ کہ کانگریس مدھیہ پردیش میں کھلے عام نرم ہندتوا کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس کا بنیادی مقصد بی جے پی کے اس پروپیگنڈے کا توڑ کرنا ہے کہ کانگریس ایک ہندو مخالف پارٹی ہے۔ کانگریس اس الزام کا منہ توڑ جواب دینے کی بجائے خود بی جے پی کے جال میں پھنستی ہوئی نظر آرہی ہے۔جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کانگریسی لیڈران کو راہل گاندھی کی پیروی کرتے ہوئے بھارت کو جوڑنے کے لیے سیکولر ازم کے نظریہ کو فروغ دینا چاہئے۔ اگر کمل ناتھ نے اب بھی صحیح راہ نہیں پکڑی تو وہ زبردست نقصان اٹھا سکتے ہیں۔
masoom.moradabadi@gmail.com