Jadid Khabar

’میڈیا‘کے ہاتھوں ’مافیا‘کا قتل

Thumb

اترپردیش کے مافیا ڈان عتیق احمداور اس کے بھائی اشرف کو گزشتہ ہفتہ ایک سنسنی خیز وارادات میں تین نوجوانوں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ جس وقت یہ واردات انجام دی گئی تو دونوں بھائی عدالتی تحویل میں تھے اور ان کی حفاظت پر ڈیڑھ درجن پولیس والے تعینات تھے۔ حملے کے وقت ان میں سے کسی نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ عتیق احمدکافی دنوں سے جیل میں تھا اور اس نے کئی بار اپنے قتل کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔یہاں تک کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ تک کا دروازہ کھٹکھٹایاگیا تھا، لیکن اس کی ایک نہیں سنی گئی اور آخرکار وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔اس معاملے کی سب سے انوکھی بات یہ ہے کہ جن تین جرائم پیشہ نوجوانوں نے عتیق اور اس کے بھائی کو بڑی مہارت سے قتل کیا ہے، وہ میڈیا کارکنوں کا بھیس بدل کر آئے تھے۔ ان کے پاس پریس کارڈ، کیمرہ اور مائک بھی تھا۔شروع میں یہی سمجھا گیا کہ دونوں بھائیوں کو اسی میڈیا نے قتل کیا ہے جو پچھلے کئی ہفتوں سے عتیق کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑا ہوا تھا، مگرحقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ حملہ آور جرائم پیشہ تھے اور انھوں نے اپنے بچاؤ کے لیے میڈیا کی آڑ لی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دوہرے قتل کے اگلے دن ایک اخباری  کارٹون میں عتیق اور اس کے بھائی پر ٹی وی کیمرے اور مائک سے گولیاں برستی ہوئی دکھائی گئی تھیں۔
ملک کی تاریخ میں شایدیہ پہلا موقع ہے کہ سنگین قتل کی واردات میڈیا کا بھیس بدل کر انجام دی گئی ہے۔عتیق‘ اس کے بھائی اشرف اوربیٹے اسد کے قتل کے بعد گودی میڈیا کے نشانے پراب اس کی بیوی شائستہ پروین اور دیگر اہل خانہہیں۔ عجب نہیں کہ میڈیا کے اسی طوفان بدتمیزی کے دوران عتیق کے خاندان کے دیگر افراد بھی اسی انجام سے دوچار ہوں۔ نقلی میڈیا والوں کے ہاتھوں عتیق اور اس کے قتل کے بعد سب سے بڑا جشن اصلی نیوز چینلوں کے اسٹوڈیوز میں  منایا گیا۔ سچ پوچھئے تو عتیق احمد پچھلے ایک مہینے سے میڈیا کے ہاتھوں کا کھلونا بنا ہوا تھا۔ جس انداز میں اس کی ہر نقل وحرکت کا لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جارہا تھا، اسے دیکھ کر کسی انہونی کا احساس پہلے ہی ہونے لگا تھا۔ 
پچھلے مہینے امیش پال قتل کیس میں بیان درج کرانے کے لیے عتیق کو جب احمد آباد کی سابرمتی جیل سے الہ آباد لایا گیا تو 24گھنٹوں کے اس سفر کی لمحہ بہ لمحہ روئیداد میڈیا کے کیمروں میں قید ہورہی تھی۔ سب سے تیز چینل نے تو اس کے پیشاب کرنے کو بھی ایک خبر بناکر پیش کرنے میں شرم محسوس نہیں کی۔یوں محسوس ہوا کہ پوری ٹی وی صحافت عتیق کے قارورے میں سما گئی ہے۔عتیق کواحمدآباد سے بذریعہ ہوائی جہاز بھی الہ آبادلایا جاسکتا تھا، لیکن اس سے میڈیا کولائیو ٹیلی کاسٹ کا موقع نہیں ملتا۔ اسی لیے منصوبہ بند طریقے سے پولیس نے میڈیا والوں کو ساتھ لے کر سابرمتی جیل سے الہ آباد تک کی رتھ یاترا خاصی اچھل کود کے ساتھ طے کی  اور پورے ملک کی توجہ عتیق احمد پر مرکوز رکھی۔ چونکہ عتیق احمد ہی ملک وقوم کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ شاید اسی لیے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ عتیق کے قتل کے بعد اترپردیش میں جرائم پر مکمل قابو پالیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عتیق کے انکاؤنٹر کے اگلے ہی روز یوپی کے جالون ضلع میں ایک طالبہکادن دھاڑے قتل کردیا گیا۔لیکن یہ خبر میڈیا کی توجہ نہیں پاسکی، چونکہ میڈیا عتیق کی بیوہ  شائستہ پروین کو تلاش کرنے میں مصروف تھا اور ایسی ایسی سرخیاں جمارہا تھا کہ اس کے ناظرین ٹی وی سے چپکے رہیں اور ایک لمحے کے لیے عتیق اور اس کے خاندان سے غافل نہ ہوں۔
یہ بھی کوئی اتفاق نہیں ہے کہ عتیق کے قتل کے بعد وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ مسکراتے ہوئے پہلی لائیوسیلفی گودی میڈیا کے ایک بدنام زمانہ اینکر نے لی، جس میں وزیراعلیٰ اس نام نہاد صحافی کی تعریف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ہمیں یہاں ایک پراناواقعہ یاد آرہا ہے، جس سے آپ اخبارنویسی کے آداب سیکھ سکتے ہیں۔ انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ کے مالک آنجہانی رام ناتھ گوینکا سے ایک وزیراعلیٰ نے جب یہ کہا کہ”آپ کا رپورٹر بہت اچھا کام کررہا ہے“ تو گوینکا نے اگلے روز اس رپورٹر کو ملازمت سے برخاست کردیا۔ کیونکہ وہ ایسے صحافیوں کو پسند نہیں کرتے تھے جو حکومت کے چہیتے ہوں۔ صحافی کا بنیادی کام حکومت پر تنقید کرنا ہے اوریہی وجہ ہے کہ سچے اور کھرے صحافی حکومت اور سرکاری مشنری کی آنکھوں کا کانٹا ہوتے ہیں۔لیکن گودی میڈیا کے اینکروں کی سب سے بڑی خوبی  حکومت کی چاپلوسی ہے۔
 سبھی جانتے ہیں کہ میڈیا کا بنیادی کام غیرجانبداری کے ساتھ خبریں فراہمکرنا ہے، لیکن جب سے ہمارے ملک میں الیکٹرانک میڈیا کا عروج ہواہے تب سے صحافت کیمعنی بالکل بدل گئے ہیں۔غیرجانبدار صحافت کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ ٹی وی چینلوں نے بے شرمی اور بے غیرتی کی تمام حدیں پارکرلی ہیں۔ حالیہ عرصہ میں ملک کے اندر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا کام جس انداز میں ان چینلوں نے انجام دیا ہے، اس کی کوئی نظیر ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ٹی وی چینل ازخود خبروں کی تخلیق کرنے لگے ہیں۔ وہ ہر وقت اپنے ناظرین کو ہیجان میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں اور انھیں مجرمانہ سرگرمیوں کی تائید پر اکساتے ہیں۔ وہ بنیادی سوالوں پر کوئی بحث ومباحثہ نہیں کرتے بلکہ ہر وقت ایک نیا دشمن تخلیقکرنے کی جستجو میں سرگرم رہتے ہیں تاکہ اس پر اپنے کیمروں اور مائکوں سے گولیوں کی بوچھار کرکے تسکین حاصل کرسکیں۔ اگر کسی معاملہ میں ملزم کوئی مسلمان ہو توگودی میڈیا کی اچھل کود دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ گھڑی کی چوتھائی میں اس مسلمان کو سولی پر چڑھانے پر کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ اپنی بدترین مسلم دشمن ذہنیت کا مظاہرہ کرتے وقت انھیں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔
اگرہمارے ملک میں میڈیا آزاد اور غیرجانبدار ہوتا تو وہ یہ سوال ضرور پوچھتاکہ خطرناک اسلحہ سے لیس نقلی میڈیا والے عتیق احمد اور اس کے بھائی کے اس قدر قریب کیسے پہنچ گئے کہ انھوں نے دونوں کی کنپٹی پر پستول رکھ کر انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا؟ ظاہر ہے اس سے میڈیا کی بھی بدنامی ہوئی ہے،لیکن اس بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا گیا۔سوال یہ بھی ہے کہ عتیق اور اس کے بھائی کی حفاظت پر مامور ڈیڑھ درجن پولیس والوں نے مزاحمت کیوں نہیں کی؟تینوں قاتلوں کو گرفتار کرنے کے بعدان کو ریمانڈ پرلینے کی بجائے سیدھے عدالتی تحویل میں کیوں بھیج دیا گیا؟ان کی قیمتی پستول اور’جے شری رام‘کے نعرے کے سلسلے میں کوئی تفتیش کیوں نہیں کی گئی؟خفیہ اطلاعات شاید ہی کبھی منظرعام پر آئیں، کیونکہ سرکاری نظام کسی بڑے انکشاف کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ہم بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عتیق احمد کی زندگی جرائمسے لبریزتھی اور وہ100سے زیادہ مقدمات میں ماخوذ تھا۔ اسے عمرقید کی سزا بھی ہوچکی تھی، لیکن ملکی قانون کی رو سے اس کی قسمت کا فیصلہ عدالت کو کرنا تھا، لیکن عدالتی فیصلہ صادر ہونے سے قبل ہی ایک ’خطرناک ملزم‘ کو پولیس تحویل میں کیوں قتل کردیا گیا؟ اس کا جواب شاید ہی کبھی مل سکے۔عتیق احمدکے ماورائے عدلت قتل کا معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ چکاہے اور وہی اس پر حتمی فیصلہ لے گا۔اس مقدمہ میں یوگی سرکار کے دوراقتدار میں انجام دئیے گئے 180 دیگرانکاؤنٹروں کا حساب بھی طلب کیا گیا ہے۔