ری پبلک ٹی وی کے چیف ایڈیٹر ارنب گوسوامی کی گرفتاری نے حکمراں بی جے پی کے حلقوں میں زبردست ہیجان پیدا کردیاہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا بمبئی پولیس نے کسی ’’ بے گناہ‘‘بی جے پی لیڈر کو گرفتار کرلیا ہے۔ بی جے پی قیادت کے ردعمل کو دیکھ کر اس الزام کی تصدیق ہوتی ہے کہ ارنب گوسوامی صحافت کی آڑمیںجو کچھ کرتے رہے ہیں ،وہ حکمراں طبقہ کی خدمت کے سوا کچھ نہیں تھا۔حالانکہ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ ان کی گرفتاری ایک فوجداری معاملے میں ہوئی ہے اور اس کاتعلق ان کی صحافتی سرگرمیوں سے نہیں ہے ۔لیکن اس کے باوجود بی جے پی اس معاملے کو صحافتی آزادی سے جوڑکر زبردست ماتم کررہی ہے ۔یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراشٹر میں صحافتی آزادی کو زبردست خطرہ لاحق ہے اور وہاں ایمرجنسی جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔اس معاملہ میں بی جے پی کے چھوٹے بڑے لیڈروں کی سینہ کوبی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ارنب گوسوامی اس ملک میں صحافت کی آبرو تھے اور ان پر ہاتھ ڈالنے سے صحافت کی یہ آبرو مٹ گئی ہے۔ حالانکہ یہ بات بچہ بچہ کو معلوم ہے کہ ارنب گوسوامی نے جس قسم کی صحافت کو پروان چڑھایا ہے، اس سے ایماندارانہ صحافت کی بقاء اور تسلسل کے لئے سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔ ارنب گوسوامی نے حکمراں جماعت کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو ہی پروان نہیں چڑھایا بلکہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف نفرت پھیلانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اچھل کود، چیخ وپکار اور ہنگامہ آرائی کو صحافت کا نام دینے والے ارنب گوسوامی موجودہ دور میں صحافت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے گزشتہ عرصہ کے دوران صحافت کی آڑ میں جو کچھ کیا ہے وہ کثافت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ارنب اور ان کے دوساتھیوں کی گرفتاری دراصل 2018 کے ایک کیس میں ہوئی ہے جس میں ان پر ایک ماں اوراس کے بیٹے کو خودکشی پر اکسانے کا الزام ہے۔یہ معاملہ دراصل ری پبلک ٹی وی کا اسٹوڈیوتیار کرنے کے معاوضہ کاہے ۔ارنب نے اسٹوڈیوتیارکرنے والے انویہ نائک کو پانچ کروڑ روپے کی ادائیگی نہیں کی تھی ۔ رقم کی عدم دستیابی کے بعد نائک اور ان کی والدہ زبردست مالی بحران میں مبتلا ہوگئے تھے اور انہوں نے اسی کے زیر اثر خودکشی کرلی تھی۔ خودکشی نوٹ میں ارنب گوسوامی اور ان کے دوساتھیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔گزشتہ سال مہاراشٹر کی بی جے پی سرکار نے اس معاملے میں فائنل رپورٹ لگاکر اسے بند کردیا تھا ۔ لیکن خودکشی کرنے والے مسٹر نائک کی اہلیہ اور ان کی بیٹی مسلسل انصاف کا مطالبہ کررہی تھیں ۔ پولیس نے جب اس کیس کی دوبارہ تفتیش کی تو اسے ارنب گوسوامی کے خلاف ٹھوس ثبوت ملے‘لہٰذا انھیں گرفتار کرلیا گیا ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹی وی اسکرین پرخم ٹھونک کردوسروں کو چیلنج کرنے والے ارنب گوسوامی اپنی گرفتاری کے وقت ڈرامہ بازی کرتے ہوئے نظر آئے اور انہوں نے عدالت میں بھی یہی سب کیا جس پر انہیں عدالت نے پھٹکار لگائی۔
ارنب گوسوامی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ اپنے پروگراموں میں ایک غیر جانبدارصحافی کی بجائے خدائی فوجدار کے روپ میں نظر آتے ہیں ۔ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ بھی ان کے اس طرزعمل پر شدید نکتہ چینی کرچکی ہے۔ وہ جس انداز میں سوال قائم کرتے ہیں وہ یقینا ایک صحافی کا طرز تخاطب نہیں ہوسکتا۔ ان کے لب ولہجہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہرقسم کی جواب دہی سے آزادا ایک ایسی اتھارٹی ہیں جو کسی بھی ملزم کو مقدمہ چلائے بغیر پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں۔ جبکہ کسی بھی معاملے میںٹھوس ثبوتوں اور شہادتوں کی بنیاد پر سزا دینے کا اختیار صرف عدالتوں کو ہے اورمیڈیا پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن وہ جس انداز میں ملزمان کو گرفتار کرنے اور سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کی باتیں کرتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہی اس ملک کی سب سے بڑی عدالت ہیں۔انھوں نے پچھلے دنوں مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے خلاف جو لب ولہجہ اختیار کیا، وہ قطعی نامناسب تھا اور ایک دستوری اتھارٹی کو براہ راست چیلنج کرنے والا تھا۔
اس پورے عرصہ میں ارنب نے جو کردار ادا کیا ہے ،وہ ایک صحافی کا کردار تو بالکل نہیں ہے۔ان کے لب ولہجہ اور دھمکیوں سے تو یہی گمان ہوتا ہے کہ وہ سیاسی ایجنڈے کے تحت کام کررہے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف کی گئی مہاراشٹر حکومت کی کارروائی پر سب سے زیادہ بی جے پی نے اٹھائے ہیں اور تمام سرکردہ مرکزی وزیر وںنے ان کا دفاع کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بی جے پی کی صوبائی اکائیوں نے ان کی گرفتاری کے خلاف ایسے ہی مظاہرے کئے ہیں جیسے کہ بی جے پی کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف ہوتے ہیں۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک صحافی کی گرفتاری کا ردعمل صحافتی حلقوں سے زیادہ سیاسی حلقوں میں کیوں ہوا ہے ؟ اگر یہ کارروائی صحافتی آزادی کے خلاف ہوتی تو سب سے تیکھا ردعمل صحافت کی دنیا میں ہوتا لیکن اس معاملے میںمعتبر صحافتی حلقوں نے محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے اور اپنے ادارتی کالموں میں ارنب کی زرد صحافت کے خلاف دائر مقدمات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ خاص طور پر پال گھر میں دوسادھوؤں کی لنچنگ پر انھوں نے کانگریس صدر سونیا گاندھی پر جو جارحانہ حملے کئے تھے ، اس کی بھی گرفت کی گئی ہے۔ اپنے چینل کی ٹی آر پی بڑھانے کے لئے وہ ناجائز طریقے اختیار کرنے کے مقدمہ کا بھی سامنا کررہے ہیں۔انھوں نے اداکار سوشانت سنگھ راجپوت خود کشی معاملے میں اپنی حدوں کو عبور کیا ہے۔
اب آئیے ایک نظر بی جے پی کے اس الزام پر بھی ڈالتے ہیں جو صحافتی آزادی پر حملہ سے تعلق رکھنا ہے۔یہاں بنیادی سوال یہ ہے جس بی جے پی کی صوبائی حکومتیں بہت معمولی باتوں پر صحافیوں کو غداری جیسے سنگین مقدمات میں ماخوذ کرچکیہیں، وہ آخر کس منہ سے صحافتی آزادی کی بات کرتی ہیں۔جن صحافیوں پربی جے پی حکومتوں نے بغاوت کے الزامات کے تحت کارروائی کی ہے، ان میں ایک نام ملک کے مایہ ناز صحافی ونود دوا کا بھی ہے کہ جن پر بی جے پی کی ہماچل سرکار نے مقدمہ درج کیا ہے ۔ بی جے پی سرکاریں جس انداز میںمسلسل صحافت کا گلا گھونٹ رہی ہیں‘ اس کی چند مثالیںپیش خدمت ہیں۔گزشتہ پانچ اکتوبرکو ملیالم زبان کے ایک صحافی کو اترپردیش پولیس نے محض اس ’ جرم ‘ میں گرفتار کیا کہ وہ ہاتھرس اجتماعی آبرویزی کی رپورٹنگ کرنے وہاں جارہے تھے۔ صدیق کپن نام کے اس صحافی پر دیگر تین نوجوانوں کے ساتھ بغاوت کا مقدمہ درج کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔اتنا ہی نہیں ہاتھرس معاملہ پرٹی وی چینلوں کی جرات مندانہ رپورٹنگ کو روکنے کے لئے مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا اور اسے اظہار خیال کی آزادی کا ’غلط استعمال ‘ قرار دیتے ہوئے اس پر فوراً پابندی لگانے کی بات کہی۔8 اکتوبرکو منی پور میں بی جے پی سرکار نے انگ کھیم نام کے ایک صحافی کو اس لئے ملک دشمنی کے الزام میں گرفتار کرلیا کہ اس نے ایک بی جے پی لیڈر کی بیوی کی فیس بک پوسٹ پر تبصرہ کرنے کی جرات کی تھی۔اسی سال 18اگست کو فری لانس صحافی پرشانت کنوجیا کو ایک ٹوئٹ کی بنیاد پراترپردیش کی یوگی سرکار نے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔ بعد کو ہائی کورٹ کی مداخلت سے ان کی رہائی عمل میں آئی۔16 جولائی کو آسام میں صحافی راجیو شرما کو اس لئے گرفتار کرلیا گیا کہ وہ ضلع فوریسٹ آفیسر کے خلاف گائے اسمگلنگ کی تحقیقات کررہے تھے۔11 مئی کو گجرات میں صحافی دھوول پٹیل کو بغاوت کی دفعات کے تحت اس لئے گرفتارکیا گیا کہ انھوں نے صوبائی وزیراعلیٰ پر تنقید کی تھی۔ 7 مئی کو ہریانہ میں صحافی نریش کھوسلہ کو اس لئے گرفتار کیا گیا کہ انھوں نے اپنے علاقہ میں پتھربازی کی اطلاع دی تھی۔ اس سے قبل 3ستمبر 2019 کو اترپردیش میں ایک صحافی کو مڈڈے میل میں بدعنوانی کی رپورٹنگ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا۔ 23 ستمبر کو سینئر صحافی آکار پٹیل کو وزیراعظم پر تبصرہ کرنے کے الزام میںگجرات سرکار نے گرفتارکیا۔ لیکن صحافیوں کے استحصال کے مذکورہ کسی بھی معاملے کو بی جے پی نے صحافتی آزادی سے جوڑ کر نہیں دیکھا۔لیکن جب ارنب گوسوامی کے خلاف کارروائی کی گئی تو پوری بھگوا بریگیڈ اور گودی میڈیا میدان میں آگیا ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ارنب گوسوامی کی گرفتاری کے خلاف ہنگامہ آرائی کا کوئی تعلق صحافتی آزادی کے دفاع سے نہیں ہے بلکہ حکمراں جماعت کی کا سہ لیسی سے ہے جو کہ ارنب گوسوامی عرصے سے انجام دے رہے ہیں۔
masoom.moradabadi@gmail.com