Jadid Khabar

افغان امن معاہدہ: تذبذب آمیز خوشی

Thumb

امریکہ نے 29؍فروری کو دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا ہے۔ یہ معاہدہ 18ماہ طویل ’’رکو اور بڑھو‘‘ مذاکرات اور ایک ہفتہ تک تشدد میں کے معاہدہ کے بعد کیا گیا جس میں آئندہ 14مہینوں میں افغانستان سے ماباقی تقریباً13000امریکی فوجیوں کی واپسی کے شرائط طے کردیے گئے ہیں۔ بدلے میں طالبان لازماً افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں اور القاعدہ جیسے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیں گے۔ لیکن افغانستان میں امن کو بالآخر وقوع پذیر ہونے کے لیے محض ایک معاہدہ کافی نہیں ہوگا بلکہ اور بھی چیزوں کی ضرورت ہوگی۔ طالبان کے قطعی جست بھرنے کی راہ میں داخلی و علاقائی عوامل حائل ہوں گے اسی طرح امریکہ اور علاقائی عوامل کا عبوری عرصہ کے دوران ردِ عمل قطعی نتیجہ کا تعین کرے گا۔ جہاں تک علاقائی اور بین الاقوامی پروازوں کا تعلق ہے ابھی تک انھوں نے بہت ہی محتاط ردِ عمل دیا ہے۔ پاکستانی عہدیداروں اور ماہرین نے امن معاہدہ کا خیر مقدم کیا ہے لیکن انھوںنے افغانستان کی امن مساعی کے مستقبل پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ہندوستان نے کہا ہے کہ یہ اس کی مستقل پالیسی رہی ہے کہ تمام موقعوں کی حمایت کی جائے جو افغانستان میں امن و استحکام لاسکتے ہوں اور دہشت گردی کے خاتمہ کو یقینی بناسکتے ہوں۔ وزارت امور خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہندوستان پڑوسی کے طور پر افغانستان کو تمام تر تعاون جاری رکھے گا جو اس بات کا ایک واضح حوالہ ہے کہ پاک مقبوضہ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گیٹریس نے اس معاہدہ کو افغانستان میں دیرپا سیاسی حل کے حصول میں ایک اہم تبدیلی قرار دیا ہے اور ساتھ ہی تشدد میں ملک گیر کمی کی برقراری کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے کہاکہ اسے امید ہے کہ معاہدہ افغانستان میں ایک جامع و مستقل جنگ بندی اور ملک گیر امن کا سبب بنے گا۔ اس دوران نیٹو کے جنرل سکریٹری جینس اسٹالٹن برگ نے اس معاہدہ کو دیرپا امن کی سمت پہلا قدم قرار دیا ہے۔ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے صدر ملا عبدالغنی بردار نے کہا کہ گروپ اس معاہدہ پر عمل آوری کا پابند ہے۔ ٹی وی پر نشر ایک تقریر میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے معاہدہ کی ستائش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ شخصی طور پر بہت جلد طالبان قائدین کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ وہائٹ ہاؤس میں ایک پریس میٹ سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان کے تمام پڑوسیوں کو چاہیے کہ وہ اس معاہدہ کے بعد استحکام کی برقراری میں مدد کریں۔ امریکہ کے یکے بعد دیگر تین صدور نے افغانستان میں فتح دلانے کا وعدہ کیا تھا تاہم ہر ایک صدر نے اس کی الگ الگ توجیہ کی ہے۔ صدر جارج ڈبلیو بش نے 11ستمبر2001کے بعد کے مہینوں میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے افغان جنگ شروع کی تھی۔ پھر فوری ہی ان کی توجہ عراق کی طرف مبذول ہوگئی اور وہائٹ ہاؤس کے انکار کے باوجود انھوں نے افغان مساعی کے ذرائع کا استعمال عراق میں اپنی دوسری جنگ کے لیے کیا۔ صدر بارک اوباما نے عراق جنگ کو ایک دفاعی غلطی قرار دیا لیکن وعدہ کیا کہ امریکہ افغان میں ایک ’’اچھی جنگ‘‘ نہیں ہارے گا۔ پھر ان کی حکمت بھی ایک فیصلہ کن دھکا پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ افغانستان میں میز پر معاہدہ ان امن مذاکرات کا نتیجہ تھا جن کا آغاز ستمبر 2018میں زلمے خلیل زاد کے ساتھ ہوا تھا جو افغان مفاہمت کے لیے امریکہ کے ہیں۔ انھوںنے ہی طالبان کے سیاسی کمیشن کے ساتھ مذاکرات کی شروع کی تھی۔
امریکی انتظامیہ نے صدر اشرف غنی کی حکومت کو باہر رکھ کر باہمی مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔ جنوری2019میں زلمے خلیل زاد نے امریکی افواج کی واپسی کے لیے طالبان کو ایک ٹائم لائن کی پیشکش کی جس کے بدلے میں طالبان بالآخر القاعدہ و دیگر دہشت گرد گروہوں کو تعاون روکنے پر رضا مند ہوگئے تاکہ تشدد میں تخفیف ہو اور جنگ کے خاتمہ کے لیے حکومت و دیگر افغانیوں کے ساتھ ایک سیاسی سمجھوتہ پر پہنچا جاسکے۔
پہلی رکاوٹ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے پہلے ہی سامنے آچکی ہے۔ جنھوںنے کہا کہ ان کی حکومت پانچ ہزار افغان جنگجوؤں کی رہائی کی پابند نہیں ہے۔ حالانکہ یہ مطالبہ افغان معاہدہ کے کلیدی اجزاء میں سے ایک ہے۔ اس معاہدہ کے مطابق پانچ ہزار طالبان جنگجوؤں کو بین افغان مذاکرات کو ہموار کرنے کے لیے 10؍مارچ تک رہا کیا جانا چاہیے۔ بین افغان مذاکرات ایک اور حساس مسئلہ ہے جو افغان گروپوں اور حریف طالبان کے ساتھ جڑا ہواہے۔ یہ مذاکرات اور بھی زیادہ پیچیدہ ہونے والے ہیں اور کئی ایک حساس فخر کے موضوعات پر اتفاق رائے کا تقاضہ کرتے ہیں۔غرض امن کی راہ مزید آگے بڑھنے کے لیے ایک عزم ہونا چاہیے۔ اس امر کے باوجود کہ طالبان بھروسہ کے قابل اور آزمودہ ہیں۔ اگر طالبان عدم سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو امریکہ اپنا عمل تبدیل کرسکتا ہے۔ بہترین منظر نامہ یہ ہوگا کہ طالبان القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرلے اور ایک سیاسی حل سے اتفاق کرلے جس میں وہ اجارہ داری کے ایک روما کی مانگ کرنے سے باز رہ سکتے ہیں اور جمہوری طریقہ سے انتخابات، خواتین کے حقوق اور تمام افغانیوں کے لیے مکمل سیاسی حقوق کو قبول کرسکتے ہیں لیکن ان امور کے لیے طالبان کے جوشیلے عہد کے مدنظر یہ سب منزل سے دور نظر آتے ہیں۔
ایک دوسرا منظر نامہ یہ ہوسکتا ہے کہ طالبان دوبارہ ہتھیار اٹھاسکتے ہیں اور امریکی فوج کے مکمل انخلاء کے بعد ملک پر دوبارہ کنٹرول کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی دغا بازی قابل قیاس نہیں ہے۔ لیکن امکان کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ کو بھی یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ اگر طالبان معاہدے پر قائم رہنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو امریکی فوجی ایکشن ایک مرتبہ پھر ان کی حکومت کا تختہ الٹ دے گی۔ پاکستان، روس اور دیگر علاقائی قوتوں کو شامل کرتے ہوئے ایک مشترکہ پہل کی جائے جو اس سیاسی حل کو توڑنے کی اپنی مخالفت کا عہد کرے اور طالبان حکومت کی واپسی خاص طور پر اس ساری مساعی میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
مزید برآں افغانستان میں ہندوستان کے امکانی اثر و نفوذ کے تعلق سے اپنے خدشات کے ساتھ پاکستان طالبان پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی حل کی وضاحت کرے، جو پاکستان کے مفادات کو پورا نہ کرتا ہو۔ مستقبل قریب میں امریکہ کو چاہیے کہ وہ ایسے مواقع تلاش کرے جو امن مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوں۔ اس معاملہ میں تحمل برتنا چاہیے اور اس عمل کا افواج کی دستبرداری کی ٹائم لائن میں توسیع کرتے ہوئے پورا ہونے دینا چاہیے اور افغان حکومت اور طالبان پر حسب ضرورت اور صورتحال کے تقاضح کے مطابق دباؤ ڈالنا چاہیے۔

(کالم نگار بی بی سی اردو اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
Email: asad.mirza.nd@gmail.com