Jadid Khabar

اپنا احتساب کیجئے

Thumb

نتیجہ کے دن صبح سے ہی ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ابتدائی رجحانات سامنے آنے لگے تو ملک کی ہر مسلم بستی میں ایک اداسی کی کیفیت دیکھی گئی لیکن اس خاموش سوال کا جواب یہ ہے کہ کیا اس کے لئے ہم خود ذمہ دار ہیں ؟اس کا جواب نفی اور اثبات دونوں میں ہے ۔
انتخابات سے قبل بہت سارے مباحث میں مسلمانو ں کی جانب سے حکمت عملی پر مبنی ووٹنگ پر توجہ دی گئی لیکن رجحانات اس کی نفی کرتے ہوئے پائے گئے ہیں ۔البتہ دہلی اور بہار میں اور اترپردیش میں کسی حد تک ایسا لگا کہ مسلمان حکمت عملی کے ساتھ ووٹ دے رہے ہیں لیکن لمحہ آخر میں انہوں نے اپنی وفاداری کانگریس کو منتقل کردی جس کے نتیجہ میں بی جے پی ان تمام نشستوں پر آگے رہی ۔رجحانات نے اس حقیقت کو بھی ثابت کیا ہے کہ ہندوستان ایک مخالفت اقلیت ‘مخالف جمہوریت ‘مخالف سیکولر ہندو راشٹر بننے جارہا ہے ۔جہاں ایک مذہب اور ایک بالا تر نظر یہ سارے ملک پر مسلط ہونے جارہا ہے ۔
انتخابی نتائج نے دو عریاں حقیقتوں کو آشکار کیا ہے۔ایک ‘ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا اقدام متحد ہو کر کرنا ہوگا اور ایک ایسے ملک میں جہاں ایک مذہب اور سیاسی سوچ ہی غالب ہونے جارہی ہے ،اپنی مذہبی اور اقلیتی شناخت کے لئے باہم مل کر لڑائی لڑنی ہوگی۔دوسرا ‘انتخابی نتائج نے بتا دیا ہے کہ عام ہندوستانی کیا چاہتا ہے ۔عام ہندوستانیوں میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ‘سیکولر اور غیر سیکولردونوں قسم کے ہندو شامل ہیں ۔نتائج سے یہ واضح ہے کہ ہر ہندوچاہتا ہے کہ اس کا مذہب چھایا رہے اور ہر شعبہ زندگی میں وہ بالا تر رہے ۔
نتائج نے اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے کہ عام ہندوستانی ووٹر ایک عام سوچ کے برعکس مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت کرتا ہے اور ان کی نالا ئقی کادائیں بازو کی کٹر طاقتوں کی جانب سے استحصال کیا جاتا ہے ۔اس پر مشتزاد کہ زیادہ تر سیاسی پارٹیاں ملک میں خاندانی کمپنیاں بن گئی ہیں ۔چنانچہ آتشی جیسے افرادجو تعلیم اور دہلی میںمحصلہ کامیابیوں کی بات کرتے ہیں ،انہیں اپنی نشستیں گنوانی پڑی ہیں ۔جبکہ جو دہشت گردی کے ملزم ہیں وہ بہت جلد ملک کے لئے قوانین بنانے جارہے ہیں ۔بازار کی سوچ بھی کچھ مختلف نہیں ہے جس میں 4000پوائنٹس تک اچھال آیا ۔
مسلمانوں اور پاکستان کے تئیں نفرت کا حکمرانوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران خوب استعمال کیا اور وہی ان کے لئے حقیقی ووٹوں میں تبدیل ہوئے ہیں۔
در حقیقت غیر تعلیم یافتہ اور بے وسیلہ عناصر 1992سے اشتعال انگیز فاشسٹ ہندوتوا کے حامی رہے ہیں۔ان عناصر کے حوصلے اس وقت بلند ہوگئے جب بابری مسجد کی شہادت اور ہندوستان کے سیکولر تانے بانے کو تباہ کرنے پر انہیں کچھ نہیں کیا گیا۔مزیدبراں ،حملے کے تمام ملزمین عدالتوں سے رہا ہوگئے۔
پہلے نکتہ کی طرف واپس آئیے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے پاس موجود راستوں کے بارے میں منطقی طور پر اور جذباتی ہوئے بغیر سوچنے کی ضرورت ہے اور اس بات کابھی جائزہ لینا ہوگا کہ کیا چیز موجود ہ صورتحال کا سبب بنی ہے ۔
مسلمانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے اور تعداد میں 17ملین کے قریب ہونے کے باوجود انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے اور گذشتہ 71برسوں میں حکومت چاہے کسی پارٹی کی رہی ہو مسلمان ملک میں نظر انداز کردیئے جانے والا سب سے بڑا گروپ رہے ہیں۔
1947کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو متحد ہو کر اقدام کرنے اور تقسیم کے جھٹکوں سے ابھر نے کے لئے 20برس لگے ۔اس عرصہ کے دوران بدقسمتی سے وہ مولانا ابوالکلام آزاد اوررفیع احمد قدوائی جیسے قائدین اور دیگر قدآور شخصیتوں سے محروم ہوگئے۔مولانا آزاد اور قدوائی جیسے قائدین کی جگہ جو قائدین آئے وہ ان کے سامنے بونے تھے اور دوسرے درجہ کے قائدین جو بہت کم عوامی اثر رکھتے ہیں محض اپنی بقاء کے لئے ان میں سے بیشتر نام نہاد سب سے بڑی قوم پرست پارٹی اور ان کی نام نہاد سیکولرزم کی پالیسی کے حمایتی بن گئے ۔
60کی دہائی تک مسلمان کسی حد تک متحد ہو کر اقدام کرنے کے اہل تھے اور مشرق وسطی‘ میں روزگار کے دروازوں کا کھلنا ان کے لئے مدد گار ثابت ہوا تھا ۔کاروبار مالیات اور تعلیم میں کسی قدر قابل لحاظ ترقی تو ہوئی لیکن ایک شعبہ جس کو انہوں نے نظر انداز کردیا وہ تعلیم کا شعبہ تھا جب کہ یہ راستہ حتمی طور پر تجارتی ترقی کی طرف لے جاتا ہے اور ملک کے انتظامی عمل میں ان کے حصہ کو بڑھاتا ہے ۔مزید بر آں کسی قد آور سیاسی قائد کے نہ ہونے سے جو خلا پیدا ہوا اسے برادری کے مسلم قائدین اور دیگر سیاسی لوگوں نے لپک لیا کیونکہ اس سے ان کی نام نہاد سیکولرزم کی پالیسی اور مسلم برادری کے مطالبات وامنگوں کی زبانی جمع خرچ کے ذریعہ تسکین کا منشا پورا ہوتا تھا۔
اب خلاصہ کی طرف آتے ہیں ‘احتساب کے عمل کا آغاز جتنا جلد ہوسکے خود مسلمانوں کی جانب سے ہونا چاہیے۔انھیںا س بات کو سمجھنا ہوگا کہ ان کے مابین اختلافات سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ اس کا حتمی نقصان سب کو ہوگا ۔برادری کو اس بات کا ادارک رکھنا ہوگا کہ بین مذہبی اختلافات کو نظر انداز کیا جانا چاہیے اور یہ کوشش ہونا چاہیے کہ انتظامی ڈھانچہ اور ملک کو چلانے کے عمل میں ان کی حصہ داری میں اضافہ ہو۔انہیں اپنے قائدین کا انتخاب خود کرنا ہوگا جو ان کے اور ملک کے لئے ایک واضح ویژن رکھتے ہوں اور مسلمانوں کو تفریق پسند طاقتوں اور نقصان دہ عناصر چاہے وہ اندر کے ہوں یا باہر کے ،ان کے آگے سرنگوں نہیں ہونا چاہیے۔