Jadid Khabar

مودی حکومت اراولی کی نئی تشریح کیوں اور کس کے فائدے کے لیے کر رہی ہے؟ جئے رام رمیش

Thumb

کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر جئے رام رمیش نے اراولی پہاڑی سلسلے سے متعلق مودی حکومت کی مجوزہ نئی تشریح پر سخت سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل کے پیچھے ماحولیاتی تحفظ نہیں بلکہ مخصوص مفادات کارفرما نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے وزیر کی حالیہ وضاحت کو ناکافی اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے شکوک و شبہات مزید گہرے ہوئے ہیں۔

جئے رام رمیش کے مطابق حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اراولی کے 1.44 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے میں سے صرف 0.19 فیصد حصہ اس وقت کان کنی کے پٹوں کے تحت ہے لیکن جب اس فیصد کو زمینی حقیقت میں بدلا جائے تو یہ تقریباً 68 ہزار ایکڑ بنتا ہے، جو کسی بھی لحاظ سے معمولی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ فیصدی اعداد و شمار کے پیچھے اصل پیمانے کو چھپا کر مسئلے کی سنگینی کم دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ 1.44 لاکھ مربع کلومیٹر کا عدد خود ہی گمراہ کن ہے، کیونکہ اس میں چار ریاستوں کے 34 اضلاع کا مکمل جغرافیائی رقبہ شامل کر لیا گیا ہے، حالانکہ ان اضلاع کے اندر اراولی کا اصل پھیلاؤ اس سے کہیں محدود ہے۔ اگر صرف حقیقی اراولی خطے کو بنیاد بنایا جائے تو کان کنی کے تحت آنے والا حصہ کہیں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے اور حکومت کا دعویٰ کمزور ثابت ہوتا ہے۔
جئے رام رمیش نے کہا کہ جن 15 اضلاع کے اعداد و شمار کی تصدیق ممکن ہے، وہاں اراولی کا رقبہ مجموعی زمینی علاقے کا تقریباً 33 فیصد ہے۔ نئی تشریح کے بعد ان علاقوں میں سے کتنا حصہ تحفظ کے دائرے سے باہر نکالا جائے گا اور کتنا علاقہ کان کنی یا دیگر ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے کھولا جائے گا، اس بارے میں حکومت نے کوئی واضح جواب نہیں دیا ہے۔
انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اگر حکومت مقامی پروفائل کو بنیاد بناتی ہے تو 100 میٹر سے زیادہ بلند کئی پہاڑیاں بھی ماحولیاتی تحفظ سے باہر ہو سکتی ہیں۔ اس کا براہ راست اثر دہلی-این سی آر کے ماحول پر پڑے گا، جہاں پہلے ہی فضائی آلودگی، پانی کی قلت اور درجہ حرارت میں اضافہ سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ان کے مطابق نئی تشریح کے نتیجے میں اراولی کے بڑے حصے کو رئیل اسٹیٹ ترقی کے لیے کھول دیا جائے گا، جس سے قدرتی توازن مزید بگڑ سکتا ہے۔
جئے رام رمیش نے سرسکہ ٹائیگر ریزرو کی حدود میں ممکنہ تبدیلیوں کی طرف بھی توجہ دلائی اور کہا کہ باہم جڑے ہوئے ماحولیاتی نظام کو ٹکڑوں میں بانٹنا اس کے مجموعی ماحولیاتی کردار کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسے تجربات کے منفی نتائج ملک کے دیگر حصوں میں پہلے ہی دیکھے جا چکے ہیں۔ ان کے مطابق اراولی محض پہاڑوں کا سلسلہ نہیں بلکہ ہندوستان کی قدرتی وراثت ہیں، جن کے لیے نئی تشریح نہیں بلکہ سنجیدہ بحالی، سائنسی تحفظ اور مضبوط پالیسی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر حکومت کن مقاصد، کن مفادات اور کن فائدہ اٹھانے والوں کے لیے اراولی کو ازسرِ نو بیان کرنے پر مصر ہے اور جنگلات سے متعلق پیشہ ور اداروں کی سفارشات کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔