سپریم کورٹ نے مسجدوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کی شرانگیز مہم پر فی الحال روک لگادی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ مجریہ1991پر سماعت کرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے نچلی عدالتوں سے کہا ہے کہ”جب تک عبادت گاہ ایکٹ کا فیصلہ نہیں ہوجاتا، اس وقت تک کسی بھی عبادت گاہ کے خلاف نہ توکوئی نئی عرضی قبول کی جائے اور نہ ہیکسیسروے کے احکامات جاری کئے جائیں۔“عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اس قسم کے احکامات ان مقدمات میں بھی جاری نہ کئے جائیں جو عدالتوں میں زیرالتواء ہیں۔سپریم کورٹ کی اس اہم رولنگ کے بعد ملک میں مسجدوں کے خلاف فسطائی طاقتوں پر فی الحال روک لگ گئی ہے جو ہرروز ایک تاریخی مسجد کے نیچے مندر ڈھونڈنے کی سازش کررہے تھے۔اسی سازش کے دوران گزشتہ دنوں اترپردیش کے سنبھل شہر میں صورتحال خاصی بگڑ گئی تھی۔ وہاں ایک مقامی عدالت نے پانچ سوسالہ قدیم شاہی جامع مسجد کے سروے کی درخواست پرجس عجلت میں سروے کے احکامات جاری کئے تھے، اس سے واضح ہوگیا تھا کہنچلی عدالتیں شرپسندوں کے آلہ کار کے طورپر استعمال ہورہی ہیں۔ سروے کے دوران جب وہاں مسلمانوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے ان پر گولیاں برسائیں اورپانچ مسلم نوجوان شہید ہوگئے۔ اس واقعہ نے پورے ملک میں ہیجان پیدا کیا اور غم وغصے کی اونچی لہریں اٹھنے لگیں۔ بعد کویہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچاجس نیسنبھل کی نچلی عدالت کے فیصلے پر روک لگائی۔اسی وقت سے یہ آوازیں اٹھ رہی تھیں کہ جب ملک میں عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون موجود ہے تو پھر اس قسم کی عرضیاں عدالتیں کیوں قبول کررہی ہیں۔
مسجدوں کے سروے کا سلسلہ دوسال قبل سابق چیف جسٹس کی اس زبانی رولنگ کے بعد شروع ہوا تھا جو انھوں نے بنارس کی گیان واپی مسجد کے سروے پر روک لگانے کے لیے دائر کی گئی ایک عرضی پر دی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ”عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون کسی عبادت گاہ کے اصل کردار کا پتہ لگانے سے نہیں روکتا۔ دراصل چندرچوڑ کی یہ زبانی رولنگ شرپسندوں اور مسلم دشمن طاقتوں کے لیے ایک نظیر بن گئی اور وہ تاریخی مسجدوں کے نیچے مندروں کی تلاش میں نکل پڑیں۔ نچلی عدالتوں نے جسٹس چندرچوڑ کے”زبانی جمع خرچ“ کو نظیر بناکر مختلف تاریخی مسجدوں کے سروے کے لیے احکامات جاری کرنے شروع کردئیے۔ ایسا محسوس ہوا کہ یہ عدالتیں اسی انتظار میں بیٹھی ہوئی تھیں۔حالانکہ جسٹس چندرچوڑ نے اب یہ وضاحت کی ہے کہ ”ان کا تبصرہ عدالت میں ہونے والی بحث کا صرف ایک حصہ تھا اور یہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں تھا۔“لیکن یہ وضاحت اتنی تاخیر سے آئی ہے کہ اس کی وجہ سے ملک کی فضا کافی خراب ہوچکی ہے۔
درحقیقت مسجدوں کے نیچے مندر وں کی تلاش روکنے کا سب سے کارگر ہتھیار عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون ہی ہے، جسے روبہ عمل لانے کی سخت ضرورت تھی، جسے حکمراں بی جے پی ہی کے ایک لیڈر نے سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔لہٰذا اس معاملے میں بعض مسلم اور سیکولر جماعتوں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کوچیلنج کرنے کے لیے دائر کی گئی عرضیوں پرسماعت کے دوران انھیں بھی سنے۔سپریم کورٹ نے ایسا ہی کیا تاکہ ملک کو کھودنے کی اس شرانگیز اور خطرناک مہم پرقابو میں پایاجاسکے۔ اس سلسلہ میں جمعیۃ علماء کے علاوہ مسلم لیگ،سی پی ایم، راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر منوج کمار جھا اور شردپوار کی قیادت والی این سی پی کی طرف سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت ملک کی مختلف عدالتوں میں دس مسجدوں کے خلاف اٹھارہ مقدمات زیرسماعت ہیں۔ ان میں بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ، دہلی کی مسجد قوت الاسلام، مدھیہ پردیش کی کمال مولامسجد، سنبھل کی شاہی جامع مسجد،جون پور کی اٹالا مسجد، بدایوں کی شمسی جامع مسجد، لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد، منگلور کی ملالی جامع مسجد کے علاوہ ان میں اجمیرکی بین الاقوامی شہرت یافتہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ بھی شامل ہے۔
سپریم کورٹ نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ عدالتیں ان معاملوں میں کوئی بھی عبوری یا حتمی فیصلہ صادر نہ کریں اور نہ ہی سروے کے احکامات دیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اگلے حکم تک کوئی بھی نیا دعویٰ قبول نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی قیادت والی بنچ نے کہا کہ”سپریم کورٹ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کے دستوری جواز اوراس کے دائرے کا جائزہ لے رہا ہے، ایسے میں سبھی عدالتیں اس معاملے میں کوئی بھی حکم جاری کرنے سے باز رہیں۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مرکزی حکومت سے بھی جواب مانگا ہے۔ دیگر فریقین مرکز کی طرف سے جواب داخل کرنے کے چار ہفتوں کے بعد اپنا جواب دیں گے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مسلم فریق اور دیگر سے کہا ہے کہ ان کی مداخلت عرضیوں کو قبول کیا جاتا ہے اور ان پر بھی سماعت کی جائے گی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کاکام خود ایک بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے نے 2020 میں کیا تھا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ایکٹ کے خلاف خود حکمراں جماعت ہی میدان میں ہے، لیکن اس سلسلہ میں اب تک سپریم کورٹ نے حکومت کو جو نوٹس جاری کئے ہیں ان کا کوئی جواب داخل نہیں کیا گیا ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایکٹ 1991میں نرسمہاراؤ کی سرکار نے اس وقت نافذ کیا تھا جب بابری مسجد تنازعہ اپنے عروج پر تھا۔ مستقبل میں اس قسم کے خوفناک تنازعات کو روکنے لیے ہی یہ ایکٹ لایا گیا تھا۔ اس ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کی آزادی کے وقت یعنی 1947 میں جو عبادت گاہ جس پوزیشن میں تھی، اس کی وہی حیثیت برقرار رہے گی۔ یعنی مسجد، مسجد رہے گی اور مندر مندر رہے گا اور کسی بھی صورت میں ان کی ہیئت تبدیل نہیں کی جائے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھیکہ ایودھیا تنازعہ کی وجہ سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندومسلم اتحاد کو جو نقصان پہنچا تھا، اس کی تلافیکی جاسکے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے اس لیے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ اس وقت اس کا مقدمہ زیرسماعت تھا۔2019میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی رام مندر کے پیروکاروں کو دینے کے عجیب وغریب فیصلے میں کچھ ایسی باتیں بھی کہی تھیں جن سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔ سب سے پہلی بات تو یہی تھی کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی۔ دوسری بات یہ کہ مسجدکا انہدام ایک مجرمانہ فعل تھا۔ تیسریسپریم کورٹ نے اس فیصلے میں خود عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کی اہمیت کو تسلیم کیا تھا تاکہ مستقبل میں ملک کو مزید تباہی سے بچایا جاسکے۔ لیکن بابری مسجد کے حق میں تمام ثبوتوں کو تسلیم کر نے کے باوجود جو فیصلہ سنایا گیا وہ انصاف سے زیادہ اکثریت کے جذبات کو تسکین پہنچانے والا تھا۔ تبھی سے فرقہ پرست اور فسطائی ذہنوں میں یہ بیماری سرایت کرگئی ہے کہ اس ملک میں دستور اور قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ سب کچھ اکثریت کی مرضی سے ہی ہوگا۔ اس بیماری کے جراثیم عدلیہ میں کس حدتک سرایت کرچکے ہیں،اس کا تازہ ثبوت الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کا وہ بیان ہے جو انھوں نے وشوہندوپریشد جیسی خطرناک فرقہ پرست تنظیم کے ایک پروگرام میں دیا ہے۔ انھوں نے یکساں سول کوڈ کے موضوع پر بولتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف خوب زہراگلا ہے۔اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مذکورہ جج کے خلاف پارلیمنٹ میں مواخذہ کی تحریک پیش کردی گئی ہے، جس پر55ممبران پارلیمنٹ نے دستخط کئے ہیں۔دراصل بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد نوکر شاہی اور عدالتی نظام کو جس انداز میں آلودہ کیا گیاہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ سیکولر جمہوری دستور کے نفاذ کا حلف لینے والوں کی ذہنیت بھی ’ہندتوا‘ کے رنگ میں رنگ گئی ہے۔