گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران اسرائیل نے غزہ میں جو وحشیانہ مظالم ڈھائے ہیں، اس کا سب سے بڑا ثبوت الشفاء اسپتال ہے۔ جنگ کے دوران اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور عبادت گاہیں وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں چنگیز اور ہلاکو جیسی فوجیں بھی حملہ نہیں کرتیں، لیکنحقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے سب سے زیادہ بم غزہ کے اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں پر ہی گرائے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہاں مریضوں اورزخمیوں کی آڑ میں حماس کے لڑاکوں نے پناہ لے رکھی ہے، لیکن جب اسرائیلی افواج نے خطرناک بمباری کے بعد الشفاء اسپتال کو اپنے قبضے میں لیا تو وہاں حماس کا کوئی نام ونشان بھی نہیں ملا۔ اسرائیل اسپتال میں اسلحہ بارود ملنے کے لاکھ دعوے کرے،لیکن یہ سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ جنگ میں سب سے بڑا خون سچائی کا ہوتا ہے تو یہ بات غزہ میں اسرائیلی دعوؤں پر بھی سچ ثابت ہورہی ہے۔الشفاء اسپتال کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ یہ میڈیکل کمپاؤنڈ ایک ’بڑی جیل‘اور وہاں موجود تمام لوگوں کے لیے’اجتماعی قبر‘میں تبدیل ہوگیا ہے۔ڈاکٹر محمد ابوسالمیہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ اسپتال میں اس وقت سات ہزار افراد موجود ہیں اور عملہ اب بھی مریضوں کی مددکے لیے کام کررہا ہے، لیکن انھوں نے ان تمام افراد کو کھودیا ہے جو آئی سی یو میں زیرعلاج تھے۔ہمارے پاس کچھ نہیں بچا۔نہ بجلی، نہ پانی، نہ خوراک اور نہ دوائیں۔ہرگزرتے لمحے کے ساتھ ہم زندگیاں کھورہے ہیں۔
گزشتہ منگل کو اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں الشفاء اسپتال میں کئی نوزائیدہ بچوں سمیت 179/لوگ ملبے میں دفن ہوگئے ہیں۔ وسائل کی کمی کے باعث اسپتال میں ہی ان کی اجتماعی قبر بنادی گئی ہے۔شاید یہ دنیا میں اب تک کی سب سے بڑی اجتماعی قبر ہو،لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ان بزدل حکمرانوں کی بھی قبر ہے جو دنیا میں خطرناک اسلحوں کے ساتھ امن قایم کرنا چاہتے ہیں اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ ظالم وجابر اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہوئے ہیں جبکہ عالمی طبی تنظیم ڈبلو ایچ اوکے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ غزہ کے اسپتال مقتل بن گئے ہیں، دنیا کو خاموش نہیں رہنا چاہئے۔
غزہ میں گورکن کی خدمات انجام دینے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اس نے ایک ایک قبر میں چالیس چالیس لاشیں دفن کی ہیں۔ اس کی نیندیں اڑگئی ہیں اور وہ کھانے پینے کے قابل بھی نہیں رہ گیا ہے۔ اس نے زندگی میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک ساتھ اتنے لوگوں کے لیے قبریں کھودنی ہوں گی۔ کئی روز سے الشفاء اسپتال کے ڈاکٹر اور نرسیں کہہ رہی تھیں کہ اگر انھیں بجلی نہیں ملی تو اسپتال میں موجود نوزائیدہ بچوں کی موت ہوجائے گی۔ ان کا اندیشہ درست ثابت ہوا۔نہ صرف متعددمریض اور زخمی بجلی و ایندھن کی کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے بلکہ قبل ازوقت پیدا ہونے والے کئی نوزائیدہ بچوں کی بھی موت واقع ہوگئی۔اسپتال میں پانی، بجلی، کھانا، دوائیں، طبی آلات اور ایندھن سبھی کچھ ختم ہوچکا تھا۔ یعنی اسپتال پر قبضہ کرنے سے پہلے اسرائیلی درندوں نے اسے پوری طرح بے دست وپا کردیا تھا۔جو زخمی اور بیمار اسپتال میں زیرعلاج تھے، انھیں اسرائیلی فوج کی بمباری نے موت کی نیند سلادیا ہے۔غزہ کی وزارت صحت کے آفیسر منیر البرش ’الجزیرہ‘ کے نامہ نگار کے سامنے یہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ”اسپتال کے صحن میں آوارہ کتے شہریوں کے مردہ جسم نوچ رہے ہیں، کیونکہ بھاری بمباری کے بعد کوئی بھی ان کی تجہیز وتکفین کے قابل نہیں رہ گیا ہے۔“اسرائیلی کارروائی کا خاص نشانہ غزہ کے اسپتال ہیں، جو اب مردہ خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ہرطرف لاشیں ہی لاشیں ہیں اور تدفین نہ ہونے کی وجہ سے وہ خراب ہورہی ہیں۔
جی ہاں،یہ غزہ ہے جہاں اسرائیل اپنے حامیوں کی مدد سے گزشتہ چھ ہفتوں سے آگ برسا رہا ہے۔ آخری درجے کی اس درندگی اور بربریت میں اب تک14/ہزار بے گناہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔یہ تعداد نئی دہلی میں فلسطینی سفیر نے بتائی ہے۔ ان کا کہنا ہے گیارہ ہزار مہلوکین کی تعداد رجسٹرڈ ہے جبکہ تین ہزار لوگ بلڈنگوں کے ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔28/ہزار سے زیادہ زخمی ہیں اور لاکھوں لوگ اپنے گھر بار سے محروم ہوچکے ہیں۔ غزہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا قبرستان نظر آتا ہے، جہاں ہر طرف تباہی وبربادی کی داستانیں رقص کررہی ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جواس وحشت ودرندگی میں اسرائیل کے طرفدار ہیں، انھیں نہ تو غزہ میں کمسن بچوں کی آہ وبکا سنائی دے رہی ہے اور نہ ہی وہ ان کے جسموں کے چیتھڑوں کو دیکھ کر آبدیدہ ہیں۔ ان کے اندر انسانیت دم توڑ چکی ہے۔
مغربی ملکوں کے حکمرانوں نے بے حسی اور بے غیرتی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ عرب ملک سرجوڑ کر تو بیٹھے، لیکن ان کے پاس اپنی نسلوں کی بقاء اور تسلسل کی نہ تو طاقت ہے اور نہ ہی ان کے اندر اتنا حوصلہ ہے کہ وہ ایک وحشی درندے کا ہاتھ پکڑ سکیں۔غزہ کے جس اسپتال میں ایندھن کی کمی کی وجہ سے بچوں کی موت واقع ہورہی تھی اور جس کی سپلائی پر اسرائیل نے پہرے بٹھارکھے تھے، وہ ان ہی عرب ملکوں میں پیدا ہوتا ہے، لیکن اس تیل پر بھی امریکہ اور اسرائیل کا قبضہ ہے۔گزشتہ ہفتہ ریاض میں جب غزہ کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اسلامی ملکوں کی کانفرنس منعقد ہوئی تو وہاں الجیریا اور لبنان نے یہ تجویز پیش کی کہ اسرائیل کو جاری تیل کی سپلائی میں تخفیف کردی جائے اورجن مسلم ملکوں نے اس کے ساتھ سفارتی رشتے قایم کررکھے ہیں، وہ انھیں منقطع کرلیں، لیکن اس تجویز کو نامنظور کردیا گیا، جب کہ یہ معمولی درجے کا احتجاج تھا جو عرب ممالک کرسکتے تھے۔ متحدہ عرب امارات جیسا ملک اس تجویز کی مخالفت کرنے والوں میں پیش پیش تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عرب سربراہ اجلاس کسی نتیجے پر پہنچے بغیرمحض بیان بازی پر ختم ہوگیااور یہ مسلم ممالک غزہ میں برستی ہوئی آگ کو بند کرانے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرسکے۔ عرب ملکوں کی اس کمزوری نے آج یہ دن دکھائے ہیں کہ ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل مشرقی وسطیٰ کی ایک بڑی فوجی طاقت بن گیا ہے اور اس نے عربوں کے سینے میں ایک ناسور جیسی شکل اختیار کرلی ہے۔
غزہ پرجارحیت کے دوران اسرائیل نے درندگی اور بربریت کے سارے ہی ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔کوئی بھی جگہ بمباری سے محفوظ نہیں ہے۔ سب سے زیادہ نشانہ غزہ کے اسپتالوں کو بنایا گیا ہے۔ غزہ کے35/ بڑے اسپتالوں میں سے 25/ اسپتال بمباری میں بالکل تباہ ہوچکے ہیں۔ان میں سب سے ابتر حالت الشفاء اسپتال کی ہے، جو غزہ کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ غزہ کے سب سے بڑے اسپتال کی مکمل تباہی اور تاراجی کے پیچھے بھی یہی الزام تھا، لیکن وہاں حماس کا نام ونشان بھی نہیں ملا۔ یہ ایسا ہی الزام تھا جیسا کہ عراق کے خلاف فوجی کارروائی کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صدام حسین پر لگایا تھاکہ انھوں نے عام تباہی کے ہتھیار چھپارکھے ہیں، لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو آخر تک وہاں کچھ نہیں ملا، مگراس دوران اسی طرح عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی جس طرح اب اسرائیل نے غزہ کی بجائی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے جو طاقتیں اس وقت امریکہ کی پشت پر تھیں وہی آج اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔
جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں اسرائیل افواج نے الشفاء اسپتال کو پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔اسرائیل ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں وہاں داخل ہوچکی ہیں۔ حماس کے زیرزمین ٹھکانوں کی تلاش کے نام پر وہاں ہر قسم کا ظلم وستم روا رکھا جارہا ہے۔ زخمی اور بیماروں کی حالت دگرگوں ہے۔فلسطین کے وزیراعظم محمداشتیہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے الشفاء اسپتال کو غز ہ پر اپنے کنٹرول کا عنوان بنادیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ الشفاء اسپتال کے ساتھ غزہ کا دارالحکومت ہے اور اس کے سقوط کا مطلب غزہ کا سقوط ہے۔ یہ صرف زخمیوں، بیماروں، ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو قتل کرنے کا بھونڈا جواز ہے۔انھوں نے کہا کہ اسپتالوں پر بمباری، ان کی بجلی کاٹنا اور ایندھن کو ان تک نہ پہنچنے دینا بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگی جرم ہے۔ جو بھی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے،وہ بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم میں برابر کامجرم ہے۔