Jadid Khabar

نفرت انگیز تقریروں پرقانون کا دوہرا معیار

Thumb

 سماجوادی لیڈر اعظم خاں کو رامپور کی عدالت نے اشتعال انگیزی کے سلسلے میں جوسزا سنائی ہے، اس پر انصاف پسند حلقوں میں سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ اعظم خاں کو ایک ایسے وقت میں سزا سنائی گئی ہے، جب نفرت انگیز تقریروں کے بے شمار معاملوں میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لیڈران آزاد گھوم رہے ہیں۔اس صورتحال پر خود ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے بھی شدید ناراضگی ظاہر کی ہے۔ رامپور کی عدالت کے حالیہ فیصلے کو سیاسی حلقوں میں جانبداری سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اس معاملے میں سی پی آئی کے قومی سیکریٹری اتل انجان کا کہنا ہے کہ”اعظم خاں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر معاملے میں عدالت کا فیصلہ اس وقت معتبر ثابت ہوگا جب نفرت انگیز تقاریر کرنے والے بی جے پی لیڈروں کے خلاف بھی پندرہ دن کے اندر کارروائی کی جائے۔“انھوں نے انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما،ساکشی مہاراج وغیرہ کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں دہلی، یوپی اور اتراکھنڈ حکومتوں کو نفرت انگیز تقریروں کے معاملے میں ازخود کارروائی کی ہدایت دی ہے، لیکن اب تک کچھ نہیں ہوسکا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت ملک کے امن وسلامتی کو سب سے بڑا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو مسلسل سماج میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قانون نافذکرنے والی مشنری نے ان لوگوں سے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے گزشتہ ہفتے اس معاملے میں سپریم کورٹ نے سخت ہدایات جاری کی ہیں۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نفرت انگیز تقریروں سے وابستہ جرائم کے معاملے میں حکومت کو خود ایکشن لینا چاہئے اور ایسے معاملوں میں کسی شکایت کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے دہلی، یوپی اور اتراکھنڈ میں کی گئی منافرانہ تقریروں کے سلسلے میں حکومت سے کارروائی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ نفرت انگیز تقریروں کے خلاف داخل ایک عر ضی پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ”دستور کی دفعہ51-A سائنسی سوچ کی بات کرتی ہے۔ اکیسویں صدی چل رہی ہے اور ہم دھرم کے نام پر کہاں پہنچ گئے ہیں۔“عدالت نے وارننگ دی ہے کہ اگر کارروائی میں تاخیر ہوئی تواسے توہین عدالت تصور کیا جائے گااور ایسی صورت میں متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی بھی ہوگی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ملک میں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف اتنا واضح اور سخت موقف اختیار کیا ہے، ورنہ اب تک اس قسم کے معاملوں میں جو بھی عرضیاں داخل کی گئی ہیں ان پر کوئی واضح بات سامنے نہیں آسکی اور نہ ہی ان معاملوں میں حکومت اور متعلقہ افسران کی جوابدہی طے کی گئی۔ زیرسماعت عرضی پر سپریم کورٹ نے حالانکہ ابھی کوئی فیصلہ نہیں سنایا ہے تاہم اس کے موجودہ رخ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب ملک میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر نفرت کا کاروبار کرنا آسان نہیں ہوگا۔اس قسم کے معاملوں میں حکومت کی مشنری کو کسی شکایت کا انتظار کئے بغیر ایکشن میں آنا ہوگا اور نفرت پھیلانے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا۔واضح رہے کہ اب تک آخری درجے کی منافرانہ تقریروں کے خلاف درج کرائی گئی رپورٹوں پر بھی کارروائی نہیں ہوئی ہے اور پولیس اس معاملے میں اپنے سیاسی آقاؤں کے اشاروں کا انتظارکرتی رہی ہے۔اس کے بر عکس اگر کوئی مسلم لیڈر اشتعال انگیزی کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے‘جیسا کہ اعظم خاں کے معاملے میں ہوا ہے۔انہیں 2019کے عام انتخابات کے دوران بعض تقریروں کے لئے تین سال کی سزا سنائی گئی ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
 آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں ہری دوار کی دھرم سنسد میں کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کی کال دی گئی۔ اس دھرم سنسد کی انتہائی اشتعال انگیز تقریروں کی پوری دنیا میں گونج سنائی دی اور عالمی پیمانے پر ان تقریروں کو سخت تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کہ ہری دوار میں اس کے خلاف باقاعدہ پولیس میں رپورٹیں بھی درج کرائی گئیں مگر اتراکھنڈ کی پولیس ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور اس نے صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کی تو بے دلی کے ساتھ کچھ لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں، لیکن وہ لوگ جلد ہی ضمانت پر چھوٹ گئے اور نئے انداز میں اشتعال انگیزی شروع کردی۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ خاطیوں کے خلاف اتنی معمولی دفعات کے تحت مقدمات درج ہوئے تھے کہ انھیں چھوٹنا ہی تھا۔اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا یہ کاروبار حکومت کی خاموش حمایت سے پھل پھول رہا ہے اور اس کے پیچھے اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل اور ہندو راشٹر کی تشکیل کا مقصد پوشیدہ ہے۔
کیرل کی باشندہ شاہین عبداللہ نے سنیئر وکیل کپل سبل کے توسط سے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے کہا تھا کہ مسلمانوں کو نفرت انگیز تقریروں کے ذریعہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسے روکا جانا چاہئے۔ اتھارٹی اس معاملے میں کارروائی نہیں کررہی ہے۔عرضی گزار نے دلیل دی تھی کہ بی جے پی ممبرپارلیمنٹ پرویش ورما نے مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی بات کہی ہے۔عدالت نے کہا کہ ہندوستان سیکولر ملک ہے۔ہرشخص کی عزت کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔نفرت انگیز تقریریں کرنے والوں کے مذہب کی پروا کئے بغیر ایسی کارروائی کی جائے جس سے ملک کا سیکولر کردار برقرار رہے۔جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس ہرش کیش رائے کی بنچ نے یہ ہدایات جاری کرتے ہوئے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ اس قسم کی نفرت انگیز تقریروں کے معاملے میں انتظامیہ کو کسی شکایت کا انتظار کئے بغیر کارروائی کرنی چاہئے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہیں تو اسے توہین عدالت گردانا جائے گا۔اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ ملک بھر میں نفرت پھیلانے اور مسلمانوں کو اس کا چارہ بنانے والے کھلے عام ایسی منافرانہ تقریریں کرتے رہے ہیں جن سے سماج میں مسلمانوں کے خلاف تشدد بھڑک رہا ہے۔ کہیں ان کی لنچنگ کی جارہی ہے تو کہیں مذہب کی بنیاد پر ان کے ساتھ بدترین تعصب اور تنگ نظری کا سلوک کیا جارہا ہے۔ 
سپریم کورٹ میں جوعرضی داخل کی گئی ہے اس میں گزشتہ 10/اکتوبر کو دہلی میں وشوہندو پریشد وغیرہ کی طرف سے منعقد کی گئی وراٹ ہندو سبھا کا بھی ذکر ہے جس میں پرویش ورما نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی بات کہی ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں جو دیگر عرضیاں زیرسماعت ہیں ان میں بھی اسی قسم کی باتیں ہیں۔ شاہین عبداللہ کی عر ضی میں ملک کے اندر مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور انھیں دہشت زدہ کرنے کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے عدالت سے مداخلت کی درخواست کی گئی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ حکمراں جماعت کے اراکین نفرت انگیز جرائم جسمانی تشدد کے ساتھ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی میں ملوث ہیں۔عرضی میں گزشتہ دسمبر میں ہندو یووا واہنی کے پروگرام اور ہری دوار کی دھرم سنسد میں کی گئی مسلمانوں کی نسل کشی کی کال کا بھی ذکر ہے۔اسی قسم کا ایک پروگرام الہ آباد میں بھی منعقد ہوا تھا۔ اسی نوع کے پروگرام دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم اور بدرپور میں بھی کئے گئے۔ 
کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ نفرت انگیز تقریروں کے خلاف اگرچہ متعدد شکایات درج کرائی گئی ہیں، لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی، صرف رپورٹ طلب کی جاتی ہے اور یہ لوگ یومیہ بنیاد پر نفرتی پروگرام کرتے ہیں۔ان لوگوں کے خلاف یواے پی اے قانون کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی نفرت انگیزتقریروں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزجرائم کے واقعات کی آزادانہ معتبر اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی بھی اپیل کی گئی ہے۔عدالت کے تازہ رخ کو دیکھ کر تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ صادر کرے گی تاکہ نفرت پھیلانے والوں کو قرار واقعی سزامل سکے اور ملک میں ہرشہری کو باعزت زندگی گزارنے کے دستوری حق کی بحالی ہوسکے۔