ملک میں ترقی بمقابلہ ماحولیات کی بحث ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ اب مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال سے ایک اور تشویشناک خبر سامنے آئی ہے۔ جھیلوں اور سرسبز و شادابی کے لیے مشہور بھوپال میں اب ترقی کے نام پر ہزاروں درختوں پر کلہاڑی چلنے والی ہے۔ معاملہ شہر کے وسط میں واقع ایودھیا بائی پاس کا ہے جہاں سڑک چوڑی کرنے کی آڑ میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی شروع ہو چکی ہے۔ایودھیا بائی پاس، جو بھوپال کے مصروف اور اہم راستوں میں سے ایک ہے، اب اسے 4 لین سے 6 لین بنایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں طرف دو دو لین کی سروس روڈ بھی تیار کی جائیں گی جس کے بعد یہ سڑک 10 لین کی ہو جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت ہزاروں درختوں کی کٹائی ہونا ہے۔ جیسے ہی یہ خبر سامنے آئی، ماہرین ماحولیات، فطرت سے محبت کرنے والوں اور سماجی تنظیموں میں غم و غصہ پھیل گیا۔ ہر طرف سے سوالات اٹھنے لگے کہ کیا ٹریفک حل کا یہی واحد راستہ ہے اور کیا ہر بار ترقی کی قیمت درختوں کو ہی چکانی پڑے گی؟
اس پورے معاملے پر پروجیکٹ کی ذمہ داری نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا (این ایچ اے آئی) کے پاس ہے۔ این ایچ اے آئی کے پروجیکٹ مینیجر دیوانش نوول کی دلیل ہے کہ آنے والے سالوں میں لگاتارٹریفک کا دباؤ بڑھے گا اور سڑک کو چوڑا کرنے سے ٹریفک جام کے مسئلے راحت ملے گی۔ یہ معاملہ نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) تک پہنچا اور اس کی ہدایت پر پورے پروجیکٹ اور درختوں کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ تحقیقات کے بعد کمیٹی نے 10 ہزار کے بجائے 7 ہزار 871 درختوں کی کٹائی کی مشروط منظوری دی۔
ان شرائط کے مطابق کاٹے جانے والے ہر درخت کے عوض 10 نئے پودے لگائے جائیں گے۔ یعنی تقریباً 80 ہزار پودے لگانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ این ایچ اے آئی کا کہا ہے کہ شجر کاری صرف کاغذوں تک محدود نہیں ہوگی بلکہ اس کی نگرانی بھی کی جائے گی اور درختوں کی بقا کے لیے ذمہ داری بھی طے کی جائے گی۔
تاہم ماحولیاتی ماہرین ان دعوؤں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برسوں پرانے، بڑے اور سایہ دار درختوں کے نقصان کی تلافی صرف پودے لگا کر نہیں کی جا سکتی۔ ایک پودہ درخت بننے میں دہائیاں لگتی ہیں اوراس کا ماحولیاتی تعاون کسی نئے پودے سے فوری پورا نہیں ہو سکتا۔ بھوپال کے نتن سکسینہ نے ان درختوں کی کٹائی کے سلسلے میں این جی ٹی میں عرضی بھی دائر کی تھی لیکن وہ درختوں کی کٹائی کو روک نہیں پائے۔