امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حماس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے اتوار کی شام تک ان کے امن منصوبے کو منظور نہیں کیا تو وہ خوفناک انجام سے دوچار ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے عام فلسطینیوں سے کہا ہے کہ وہ فوری طورپر خطرناک علاقوں سے نکل کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوجائیں۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ غزہ میں وہ کون سا مقام ہے جو مجبور ولاچار فلسطینیوں کے لیے محفوظ ہے۔ٹرمپ نے غزہ کے لیے جو بیس نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے، اسے امن منصوبے کا نام دیا گیا ہے۔ اگر آ پ اس نام نہاد’امن منصوبے‘ کا مطالعہ کریں تو صاف محسوس ہوگا کہ یہ دراصل درندہ صفت اسرائیل کے ظلم وستم کو جائز قرار دینے، حماس کی جدوجہد کو کچلنے اور اس کا نام ونشان مٹانے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی لیے اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد صدرٹرمپ نے حماس کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے اس منصوبے کو تسلیم نہیں کیا تو اسے ’بدترین انجام‘سے دوچارہونا پڑے گا۔ نتن یاہو نے وطن واپسی پر دھمکی بھرے انداز میں امن منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ’’ہم نے اسے قبول کرلیا ہے، لیکن اگر حماس نے ایسا نہیں کیا تو ہم اکیلے ہی اس جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے۔“
اس منصوبے کے تحت72/ گھنٹوں کے اندر تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے1700 /فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کی غزہ کی حدود میں موجودگی، مستقبل کی حکومت میں حماس کی کوئی حصہ داری نہیں اور غزہ میں امن بورڈ بنانے کی بات ہے۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ دراصل غزہ میں جاری تصادم کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ غزہ میں پچھلے دوسال میں جو کچھ ہوا ہے اسے تصادم کا نام کیسے اور کیوں کر دیا جاسکتا ہے؟ یہ یک طرفہ جارحیت اور درندگی ہے جس کا ارتکاب اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے کیا ہے۔ان دوبرس کے دوران غزہ میں ایسا کون سا ظلم ہے جو اسرائیلی درندوں نے نہتے اور لاچار فلسطینیوں پر نہیں ڈھایا۔ وہاں 7/اکتوبر2023 کے بعد شروع کی گئی درندگی اور بربریت کے نتیجے میں اب تک جو66/ہزار سے زیادہ شہادتیں ہوئی ہیں، ان میں تقریباً 19/ہزار بچے شامل ہیں۔ اوسطاً ہر گھنٹے ایک بچے کی موت ہوتی ہے۔ نہ جانے کتنے بچے ایسے ہیں جو بھوک اور پیاس کی وجہ سے دردناک موت کا شکار ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے ان دوبرس میں نہ صرف غزہ پر بمباری کرکے اسے ایک کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے بلکہ وہاں پہنچنے والی امداد کو روک کر باقی ماندہ زندگی کے آثار مٹانے کی بھی کوششیں کی ہیں۔ غزہ کی بیس لاکھ سے زیادہ آبادی اس وقت جس المیے سے دوچار ہے، اسے پوری طرح لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ایک ایسا المیہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ حالانکہ پوری دنیا اس آخری درجہ کے ظلم وبربریت کے خلاف احتجاج کررہی ہے اور اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دے کر عالمی عدالت نے اس کا پروانہ گرفتاری بھی جاری کررکھا ہے۔ لیکن اس کے ظالمانہ کردار میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہورہی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کی پہل پر جو بیس نکاتی منصوبہ پیش کیا گیا ہے، اس میں حماس کہیں نہیں ہے۔یعنی اس منصوبے کا سب سے بڑا ہدف حماس کو صفحہ ہستی سے مٹاکر فلسطین کے وجود کو ختم کرنا ہے۔جن مسلم ملکوں نے اس منصوبے پر دستخط کئے ہیں ان میں مصر، قطر، سعودی عرب، ترکی اور پاکستان جیسے ممالک جیسے شامل ہیں۔ لیکن اس منصوبے کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس پر دستخط کرنے کے دوروز بعد ہی مصر نے کہا ہے کہ ”ٹرمپ کا غزہ کے حوالے سے تجویز کردہ منصوبہ کئی خامیوں کا شکار ہے اور اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ہی پاکستان کے وزیرخارجہ اسحاق ڈارنے کہاہے کہ”پاکستان خود کو اس منصوبے سے الگ کرتا ہے کیونکہ اس کا جاری کردہ مسودہ اس مسودے سے مختلف ہے جو مسلم ملکوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔“ان کا کہنا ہے کہ ”فلسطین سے متعلق پاکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔“
جن مغربی ملکوں نے اس منصوبے کو منظور کیا ہے، وہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتے ہیں، جبکہ فلسطینیوں کی نظر میں حماس ایک حریت پسند تنظیم ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور بنیادی انسانی اور شہری حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔اس منصوبے کا ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں اقوام متحدہ کا کوئی رول ہی نہیں ہے۔ یہ صرف صدر ٹرمپ اور نتن یاہو کے درمیان طے پانے والا ایک منصوبہ ہے، جس پر امریکہ کے پچھ لگوؤں نے دستخط کئے ہیں۔ اس منصوبے کی اہمیت اس وقت ہوتی اگر اس میں حماس کو بھی شامل کیا جاتا۔ اگر واقعی امریکہ غزہ کو ایک تصادم تصور کرتا ہے تو ہر تصادم کے دوفریق ہوتے ہیں۔ حماس کو درکنار کرنے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے پر خود مغربی اور امریکی میڈیا نے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ مغربی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے امریکہ اور اسرائیل کی جیت ہوئی ہے، اس میں غزہ کے لیے مستقل امن کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ حماس کے سیاسی بیور کے رکن محمدنزال نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کا یہ مطالبہ ناقابل قبول ہے کہ حماس فلسطینی ریاست بننے سے پہلے غیر مسلح ہوجائے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”دنیا کی کسی بھی آزادی کی تحریک نے آزادی سے پہلے ہتھیار نہیں ڈالے۔حماس صرف اسی وقت غیر مسلح ہوگی جب ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوگی۔“
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس منصوبے کی عمل آوری کی صورت میں سب سے بڑا کریڈٹ صدرٹرمپ کو ملے گا۔اسی لیے انھوں نے اپنے لیے امن کے نوبل انعام کی حقداری کا دعویٰ پیش کردیا ہے۔ٹرمپ کی قیادت والا ’بورڈ آف پیس‘براہ راست غزہ کی سیاست اور تعمیرنو پر اثرانداز ہوگا جس سے امریکہ کی گرفت مضبوط ہوگی۔اس میں سابق برطانوی صدر ٹونی بلیر کو بھی شامل کرنے کا امکان ہے۔غزہ میں مستقبل میں بھی انسانی وسائل اور معاشی تعمیر نو پروجیکٹ پر امریکہ کی رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کا اثر بڑھے گا۔ صدر ٹرمپ پہلے کی غزہ کو ایک سیاحتی مرکز کے طورپر ترقی دینے کی بات کرچکے ہیں جس سے انھیں بے حساب دولت حاصل ہوگی۔عرب ملکوں کو گفتگو کی میز پر لاکر ٹرمپ اپنی اور امریکہ کی شبیہ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، جو قطر پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں خاصی دھندلی ہوئی ہے۔صدر ٹرمپ کی پہل پرنتن یاہو پہلے ہی قطر سے معافی مانگ چکے ہیں۔
ٹرمپ کے منصوبے کے تحت حماس سے سیاسی نظم اور ہتھیار دونوں چھین لیے جائیں گے۔یہ اسرائیل کا برسوں پرانا مطالبہ رہا ہے اور دوسال کی جنگ کے بعد بھی اسرائیل اپنے اس مقصد کو حاصل نہیں کرپایا ہے۔غزہ میں سیکورٹی دائرہ بنے گا اور اسرائیل کو وہاں اپنی فوج رکھنے کی کھلی اجازت ہوگی۔غزہ میں زبردست تباہی پر اٹھتے عالمی سوالوں کے درمیان اسرائیل اب اس منصوبے کو امن کا عمل بتاکر تنقیدوں کو دبانے میں کامیاب ہوگا۔اس منصوبے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو عالمی عدالت میں اسرائیل اور نتن یاہو کے خلاف درج کیس واپس لینے جیسی شرطوں میں باندھ دیا گیا ہے۔دوسال کے دوران غزہ میں اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں جو66 ہزار شہادتیں اور ایک لاکھ68 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، اس کی تحقیقات کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا ہے۔ یعنی اس منصوبے کے تحت اس نسل کشی کی کوئی جوابدہی نہیں طے کی گئی ہے۔اس منصوبے میں آزاد فلسطینی مملکت کے مطالبہ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔کئی یوروپی ملکوں کی حمایت کے باوجود غزہ کی آزادی کی کوئی گارنٹی نہیں دی گئی ہے۔اس منصوبے کے مطابق اب پورا غزہ عالمی نگرانی اور اسرائیل کے حفاظتی گھیرے میں رہے گا جس سے فلسطینی عوام آزاد شہری کی بجائے نگرانی والے علاقہ کے باشندے بن کر رہ جائیں گے۔ یہی وہ تمام اہداف تھے جنھیں اسرائیل حماس کو ختم کرکے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اب ان کا راستہ صدرٹرمپ نے صاف کردیا ہے۔یہ معاہدہ پوری طرح اسرائیل کے حق میں اور فلسطینیوں کے خلاف ہے۔اس لیے اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔دراصل ٹرمپ نے امن منصوبے کی آڑ میں اسرائیل سے غزہ کا سودا کرلیا ہے۔