واشنگٹن: امریکہ میں ایک وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حکم پر عارضی پابندی لگا دی ہے جس کے تحت ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلے کے خواہشمند غیر ملکی طلبہ کو امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ بدھ کو صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد آیا جس سے امریکہ کی سب سے قدیم اور مایہ ناز یونیورسٹی کے سینکڑوں غیر ملکی طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا تھا۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے اس صدارتی حکم کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ یہ اقدام وائٹ ہاؤس کی مخالفت پر مبنی ہے اور ادارے کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔ جمعرات کو دائر کیے گئے ایک ترمیم شدہ مقدمے میں یونیورسٹی نے الزام لگایا کہ صدر ٹرمپ عدالت کے پچھلے احکامات کو نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ پابندی ان حالات میں لگائی گئی جب ٹرمپ انتظامیہ نے ملک بھر میں غیر ملکی طلبہ کے ویزوں کی جانچ پڑتال سخت کر دی ہے۔ کچھ روز قبل امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ چین کے طلبہ کے ویزے منسوخ کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ نے 22 مئی کو ایک حکم جاری کیا تھا جس کے تحت مخصوص غیر ملکی طلبہ کے نام اندراج پر بھی روک لگا دی گئی تھی، جس سے ہزاروں طلبہ کا تعلیمی مستقبل متاثر ہوا۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے انتظامیہ نے عدالت کو بتایا کہ غیر ملکی طلبہ کی ایک بڑی تعداد ریسرچ اور اسکالرشپ پروگراموں کا حصہ ہیں اور ان پر اس پابندی کے شدید اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اگرچہ انتظامیہ نے فیصلے کو وقتی طور پر معطل کر دیا ہے لیکن طلبہ میں بے چینی بدستور برقرار ہے۔
یونیورسٹی کے وکلا کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ اقدام نہ صرف طلبہ کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ امریکی تعلیمی اداروں کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان ہے، جو عالمی سطح پر علم و تحقیق کے مراکز مانے جاتے ہیں۔
یہ تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ میں تعلیمی ویزوں کے سلسلے میں پابندیاں پہلے ہی سخت ہو چکی ہیں اور حکومت دیگر یونیورسٹیوں کے پروگراموں کا بھی ازسرِنو جائزہ لے رہی ہے۔ ہارورڈ کے مطابق اس پابندی کا مقصد صرف ہارورڈ کو نشانہ بنانا ہے کیونکہ اس نے ماضی میں بھی وائٹ ہاؤس کی بعض پالیسیوں کی مخالفت کی تھی۔
اگرچہ عدالت نے اس حکم پر فی الحال عارضی روک لگا دی ہے، مگر اس کا حتمی فیصلہ آئندہ سماعتوں پر منحصر ہے۔ تب تک ہارورڈ کے غیر ملکی طلبہ کی امریکہ آمد کا معاملہ غیر یقینی صورتحال کا شکار رہے گا۔