Jadid Khabar

کیا6/ دسمبر ’بہادری‘کا دن تھا؟

Thumb

 راجستھان میں بی جے پی سرکار کے وزیرتعلیم مدن دلاور نے گزشتہ ہفتہ تمام سرکاری اور غیرسرکاری اسکولوں کو حکم دیا کہ وہ ۶/دسمبر کو ’شوریہ دوس‘ (بہادری کے دن)کے طورپر منائیں، لیکن جب اس  پرتنازعہ کھڑا ہوا تو یہ حکم نامہ یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا گیا کہ’بچوں کے امتحان چل رہے ہیں، اس لیے’شوریہ دوس‘ منانے کا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے۔‘سبھی جانتے ہیں کہ ۶/دسمبر ہندوستانی تاریخ کاایک سیاہ دن ہے، کیونکہ اسی دن ایودھیا میں پانچ سو سالہ قدیم بابری مسجد کو منہدم کردیا گیا تھا۔بابری مسجد مغل بادشاہ بابر کے سپہ سالار میرباقی نے ۸۲۵۱ میں تعمیر کرائی تھی۔ سولہویں صدی کی تعمیر شدہ اس عبادت گاہ پر انیسویں صدی میں تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب انگریزوں کے ایماء پر یہاں رام جنم بھومی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔دراصل انگریز ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کے تحت ملک کے  دوبڑے فرقوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چاہتے تھے، جس میں انھیں کامیابی ملی۔ اصل تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب ۹۴۹۱ میں بابری مسجد کے منبر پر زبردستی مورتیاں نصب کردی گئیں اور معاملہ عدالت میں چلا گیا۔اس تنازعہ کا انجام ۶/دسمبر ۲۹۹۱ کو بابری مسجد کے انہدام کی صورت میں ہوا۔ انہدام کے بعد جہاں ایک طرف مسلمان اس دن کو’یوم سیاہ‘ کے طورپر مناتے ہیں تو وہیں انتہا پسند ہندوتنظیمیں اسے ’شوریہ دوس‘کے طورپر مناتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسال جب بھی ۶/دسمبر   آتا ہے تو یہ نظم ونسق کی مشنری کے لیے بڑی آزمائش کا دن ہوتا ہے اور سرکاری مشنری کو خاصی مشقت کرنی پڑتی  ہے۔ حالانکہ جب سے ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر عالیشان مندر تعمیر ہوا ہے تب سے صورتحال قدرے بدل گئی ہے۔
 وزیراعظم نریندر مودی نے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں یہ کہا تھا کہ ’اس فیصلے کو کسی کی ہاریا جیت کے طورپر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔‘انھوں نے اس موقع پر ہندوستانی عوام سے امن اور خیرسگالی کی مثال پیش کرنے کو بھی کہا تھا۔ مسلمانوں  نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنی ناراضگی اور غصے کو قابو میں رکھا اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے نقص امن کا اندیشہ پیدا ہو، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے ضبط کو ان کی کمزوری اور بزدلی سمجھ لیا گیا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک مجرمانہ سرگرمی کو ’بہادری‘ سے تعبیر کیا جارہاہے اور وہ بھی بی جے پی کی ایک ریاستی سرکار کی طرف سے۔
وہ لوگ جن کے نزدیک ۶/ دسمبر بہادری کا دن تھا، ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اس میں بہادری جیسا کیا تھا؟ ۶/دسمبر کو ایودھیا میں جو کچھ ہوا وہ ایک مجرمانہ فعل تھا۔ یہ بات کسی اور نے نہیں خود سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہی تھی۔اتنا ہی نہیں اس تنازعہ کو سب سے زیادہ ہوا دینے والے لال کرشن اڈوانی نے خود ۶/دسمبر کو اپنی زندگی کا سب سے مایوس کن دن قراردیا تھا۔وہ ۶/دسمبر کے سلسلہ واقعات کو وہ اپنی حکمت عملی اور سیاست کے لیے غیر مناسب تصور کرتے  تھے۔ یہی نہیں اس وقت  یوپی کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے بابری مسجد کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا۔ بعد میں ایسا نہ کرپانے کے لیے عدالت نے انھیں ایک دن کی علامتی سزا بھی سنائی تھی۔ 
سبھی جانتے ہیں کہ ۶/دسمبر کو سنگھ پریوار کی تمام یقین دہانیاں جھوٹ ثابت ہوئیں۔جس وقت کارسیوکوں نے بابری مسجد پر چڑھائی کی تو وہاں مسجد کی حفاظت کے لیے تعینات پولیس اور نیم فوجی دستوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی اور اس طرح  ایک بے بس و لاچار تاریخی مسجد کو زمیں دوز کردیا گیا۔ بعد کو یہ بھی معلوم ہوا کہ کارسیوکوں کا ایک گروپ کچھ دنوں سے اس بات کی مشق کررہا تھا کہ مسجد کے گنبدوں کو کیسے زمیں دوز کیا جائے گا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وعدہ خلافی، جھوٹ اور مکر و فریب کے سہارے انجام دئیے گئے ایک مکروہ عمل کو راجستھان حکومت بہادری سے تشبیہ دے رہی ہے۔ بہادری ایک بڑا وسیع اور بامعنی لفظ ہے۔یہ  تشدد اور توڑپھوڑ سے نہیں بلکہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف نبردآزما ہونے سے عبارت ہے۔لیکن یہاں جو ریت چلی ہے اس میں بزدلی ہی کوبہادری کسمجھ لیا گیا  ہے۔ معافی مانگنے والے’ویر‘ کہلائے جارہے ہیں اور بہادروں کو وطن دشمنوں کی صف میں کھڑا کیا جارہا ہے۔۶/دسمبر کو ایودھیا میں پانچ سوسالہ قدیم بابری مسجد کو نام نہاد کارسیوا کے نام پر جس انداز میں منہدم کیا گیا وہ بدترین بزدلی کا کام تھا، جس کی پوری دنیا نے مذمت کی تھی۔
۶/دسمبر کی تاریخ کلینڈر میں ہرسال آتی ہے اورمسلمانوں کے کچھ ایسے زخموں کو ہرا کرجاتی ہے، جن کی ٹیس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے۔حالانکہ مسلمان اپنے ان زخموں کو بھولنا چاہتے ہیں جو ان کے وجود سے زیادہ ان کی روح پر لگے ہیں اور جن کا کوئی مداوا نہیں ہوسکا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ چھ دسمبر ۲۹۹۱ کو دن کے اجالے میں بابری مسجد شہید کردی گئی تھی۔ مسجد کی جگہ  آج ایک عالیشان مندر کھڑاہے جس کی تعمیر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم سے ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی آراضی رام مندر کے پیرو کاروں کے سپرد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کچھ ایسی باتیں بھی کہی تھیں جو مسلمانوں کے دعوؤں کو صد فیصد درست ثابت کرتی ہیں۔عدالت نے کہا تھا کہ ۲۲/۳۲ دسمبر ۹۴۹۱ کی درمیانی شب میں مسجد کے منبر پر مورتیاں رکھنے کا عمل پوری طرح غیرقانونی تھا۔اس معاملے میں ایک غیرمسلم کانسٹبل کی طرف سے درج کرائی گئی  رپورٹ میں صاف لکھا تھا کہ مسجد کی دیوار پھاندکر رات کی تاریکی میں زورزبردستی مورتیاں رکھی گئیں۔ 
ملک کی آزادی کے صرف دوسال بعد جب یہ شرمناک واقعہ پیش آیا تو مسلمان تقسیم کے زخموں سے چور تھے اور ان کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ اس واقعہ نے ایک زلزلہ ساپیدا کیا اور اس کی گھن گرج دہلی میں بھی سنائی دی۔ وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اس وقت اترپردیش کے وزیراعلیٰ گووند بلبھ پنت سے کہا کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں، لیکن انھوں نے نظم ونسق کا بہانہ بناکر مسجد کو بتوں سے پاک کرانے سے انکار کردیا اور آزاد ہندوستان میں ایک ایسے تنازعہ کی بنیاد رکھ دی گئی جس کی قیمت ملک آج تک ادا کررہا ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ آج ملک کے وزیردفاع یہ کہہ رہے ہیں کہ’جواہر لال نہرو نے سرکاری پیسے سے بابری مسجد بنانے کی تجویز پیش کی تھی جسے سردار پٹیل نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔
ایودھیا تنازع پرسپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کو مسجد کے نیچے کھدائی کے دوران مندر کے باقیات کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔عدالتنے واضح طورپر کہا کہ ’چھ دسمبر ۲۹۹۱ کو بابری مسجد کا انہدام ایک مجرمانہ سرگرمی تھی۔ یہاں تک تو سپریم کورٹ کی سب باتیں حق بجانب ہیں، لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس ’جرم‘ میں شامل کسی شخص کو آج تک سزا کیوں نہیں ملی اور عدالت نے انھیں ثبوتوں کے فقدان کی بنا پر باعزت کیوں بری کردیا؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کو نیشنل میڈیا نے گاندھی کے قتل کے بعدآزاد ہندوستان کی سب سے بڑی واردات قرار دیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب نیشنل میڈیا کا ضمیر زندہ تھا اور اس پر آج کی طرح سیاہی نہیں پھری تھی۔